2018کے انتخابات کی تیاریاں

اتوار 21 مئی 2017

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

سیاسی جماعتوں نے اگلے سال ہونے والے انتخابات کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے اور ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت سرگرمیوں شروع ہورہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں رکنیت سازی، جماعتی تنظیم اور منشور سازی کا کام جاری ہے ۔ نہ حزب مخالف کی جانب سے بے بنیاد الزامات عائد کئے جارہے ہیں اور نہ ہی حکومت سنگ بنیاد، افتتاح اور ترقیاتی فنڈز کا لالچ عوام کو دے رہی ہے۔

موسم خزاں کے آغاز سے اس مہم میں شدت آجائے گی اور عوامی رابطہ مہم میں مزید تیزی ہوگی۔ اگلے سال کے اوائل میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کی فہرستیں تیار کرکے الیکشن کمیشن کو ارسال کردیں گی۔ حکومتی اور حزب مخالف کی جماعتیں اپنی کارکردگی اور منشور عوام کے سامنے رکھیں گی اور عوام قیمے والے نان اور بریانی کھا کر یا ذات برادری، مذہبی اور لسانی تعصبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریات اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔

(جاری ہے)

یہ پس منظر سویڈن میں اگلے سال ہونے والے انتخابات کا ہے ۔ اگلے برس پاکستان میں بھی عام انتخابات منعقد ہونے ہیں اورجب سویڈن میں انتخابی سرگرمیاں جاری ہوں گی ٹھیک اسی دور میں پاکستان میں بھی انتخابی سرگرمیوں اپنے عروج پر ہوں گی ۔ فرق یہ ہے سویڈش عوام جمہوریت کے تسلسل کے لئے جبکہ پاکستانی عوام سٹیٹس کو کو دوام بخشنے کے لئے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔

سویڈن میں جمہوریت کی تعلیم و تربیت سکول دور سے ہی دی جاتی ہے۔ نوجوانوں اور سول سوسائیٹی کا سویڈش ادارہ ملک کے سکولوں میں عام انتخابات سے قبل طلبہ کے انتخابات منعقد کرواتا ہے جس مقصد کے لئے اسے حکومت خطیر رقم مہیا کرتی ہے۔ منتخب سکولوں اور کالجوں میں طلبہ کا اپنا الیکشن کمیشن ہوتا ہے جو سارے نظام کی نگرانی کرتا ہے اور انتخابات کے بعد نتائج کابھی اعلان کیا جاتا ہے۔

سویڈن میں سیاسی جماعتوں کے یوتھ ونگ موجود ہیں لیکن سکولوں اور کالجوں میں طلبہ یونین کے انتخابات غیر جماعتی ہوتے ہیں اور یہاں کے تعلیم ادارے سیاسی جماعتوں کے بغل بچہ تنظیموں کے اکھاڑے نہیں ہیں۔ یہاں سرکاری ملازم نہ صرف سیاسی جماعت کا رکن بن سکتا ہے بلکہ سیاست میں حصہ لیتے ہوئے انتخابی امیداور بھی بن سکتا ہے جبکہ پاکستان میں سرکاری ملازمین کی جاسوسی کی جاتی ہے اور اگر اس کا رجحان بھی کسی سیاسی جماعت کی طرف ہو تو اسے سالانہ کارکردگی رپورٹ میں لکھا جاتا ہے جس بنیاد پر حزب مخالف سے ذہنی ہم آاہنگی رکھنے والے افسر اکثرکھڈے لائن لگا دیئے جاتے ہیں۔


سویڈن میں ہر چار سال بعد ستمبر کے دوسرے اتوار کو منعقد ہوتے ہیں۔ اگلے برس ۹ ستمبر کو سویڈش پارلیمنٹ کے 349اراکین منتخب کئے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ہی دن بلدیاتی اور ریجنل کونسلوں کے انتخابات بھی منعقد ہوں گے۔ چار فی صد سے کم ووٹ لینے والی جماعت پارلیمان میں نہیں پہنچ سکتی ۔ برکت حسین سویڈن میں ایک طویل عرصہ سے مقیم ہیں اور سویڈش لیفٹ پارٹی کی جانب سے تین مرتبہ مسلسل کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔

سویڈش انتخابی نظام کے بارے میں ان کا کہناہے کہ بلدیاتی ہوں یا پارلیمنٹ کے امیدوار ، ان کا سب انتخاب ہر سیاسی جماعت کی منتخب کمیٹی انتخابات کی ذمہ دار کونسل کرتی ہے۔ انتخابی ٹکٹ میرٹ پر دئیے جاتے ہیں ۔ کسی بھی جماعت کا سربراہ نہ توکسی کو ٹکٹ لے کردے سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی نامزدگی کو روک سکتا ہے۔ سویڈن میں انتخابات متناسب نمائدگی کی بنیاد پرہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عوام کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ہر حلقے کی انتخابی فہرست سے اپنے پسندیدہ امیداور کا انتخاب کرلیں۔

اس طرح متناسب نمائدگی اور شخصی خوبیاں دونوں پیش نظر ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب میرٹ اور احتیاط سے کرتی ہیں۔ بددیانتی۔ وعدہ خلافی، جھوٹ، بے ایمانی، کرپشن اور دیگر اخلاقی برائیوں میں ملوث شخص میداوار نہیں بن سکتا گویا صادق اور امین کی شرائط کا عملی اطلاق کیا جاتا ہے جسے پاکستان میں کئی حلقے تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں جن میں وہ ریٹرننگ ّفسر بھی شامل ہیں جو امیدوار کے جرائم کو دیکھنے کی بجائے ان سے کلمے اور ایمان کی صفتیں سنتے ہیں۔

حضور یہ ہے وہ نظام جسے جمہوریت کہتے ہیں اور پاکستان میں رائج نظام کو جمہوریت نہیں بلکہ وہ کچھ اور ہی نظام ہے۔ جمہوریت ، انصاف، حقوق انسانی اور سماجی بہبود کے نظام کی حامل جنت نظیر مملکت سویڈن کو یہاں کے عوام نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشا ہے او جمہوریت کے نام پر سٹیٹس کو جاری رکھے کے ذمہ دار پاکستانی عوام خود ہیں جس کا خمیازہ انہیں خود ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :