بیرون ملک صرف سبز ہلالی پرچم

اتوار 9 ستمبر 2018

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ حقیقی معنوں میں وہی میزبان ملک میں پاکستان کے سفیر ہیں اور یہ بالکل درست ہے۔ سفارت کاری کا فریضہ سرانجام دینے والی شخصیت کا رابطہ تو چند لوگوں کے ساتھ محدود وقت کے لیے ہوتا لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا تعلق متعلقہ ملک کے عوام کے ساتھ مسلسل رہتا ہے۔ بیرون ملک مقیم لوگ وہاں پاکستان کا تعارف ہیں اور اپنے اچھے عمل اور میزبان ملک میں باوقار شہری کی حیثیت سے رہتے ہوئے پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ کرتے ہیں۔

وہ اپنے ملک کی بہتر نمائندگی تب ہی کرسکتے ہیں جب ووہ باہمی اختلافات، لڑائی جھگڑوں، تنازعات اور چپقلش سے بچ کر رہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کی پہچان صرف اور صرف ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہو اور ان کے ہاتھوں میں صر ف پاکستان کا پرچم ہو لیکن جب وہ اپنے آپ کو پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں میں منقسم کرلیتے ہیں تو اتحاد و اتفاق کی فضا ممکن نہیں رہتی جس کا نتیجہ سر پھٹول کی صورت میں نکلتا ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کی خاطر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے دام کا اسیر کرنے کی کوششیں کررکھی ہیں اور جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں وہاں وہاں پاکستانی سیاسی جماعتیں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ جو جماعت اقتدار میں ہوتی ہے اس کی سرگرمیاں زیادہ ہوجاتی ہیں ۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی جن کے ہاتھ میں صرف سبز ہلالی پرچم ہونا چاہیے تھا بد قسمتی سے ان کے ہاتھوں میں رنگ برنگے پرچم تھما دئیے گئے ہیں۔

پہلے لوگ سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور پھر ہر سیاسی جماعت میں مختلف دھڑے ہیں جو قیادت کے حصول کے لیے باہم دست و گریباں ہیں۔ ایک ہی سیاسی جماعت میں اقتدار کی رسہ کشی عام معمول ہے۔ بیرون پا کستان سیاسی جماعتوں کے قیام کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے پاکستان کی خدمت ہوگی اور بیرون ملک ہونے والی ترقی اور علوم و فنون کو پاکستان کی بہتری کے لیے بروئے کار لایا جائے گا۔

یہ سوچ قابل تعریف ہے لیکن اس کے لیے سیاسی جماعتوں کے قیام کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ غیر سیاسی انداز ، سفارت خانوں اور دیگر ذرائع سے اطلاعات اور فیڈ بیک پاکستان بھیجا جاسکتا ہے۔ اگر پاکستان کی تعمیر و ترقی اور بہتری مقصود ہے تو سیاسی جماعتوں میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے سماجی بہبود اور تعلیم و ترقی کے اداروں مثلاََ شوکت خانم میموریل کینسر ہاسپیٹل، اخوت فاونڈیشن، ڈاکٹر اے قیو خان ہاسپیٹل ٹرسٹ ، ایدھی، سہارا، سندس اور دوسری بہت سی تنظیموں کے لیے کام کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی بہترین خدمت انہی میں سے کسی بھی فلاحی ادارے کے ساتھ کام کرکے کی جاسکتی ہے۔
اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے سویڈن کی ایک اہم کاروباری شخصیت جناب وسیم اعجازچوہدری کا یہی کہنا ہے کہ اس سے پاکستانی کمیونٹی تقسیم در تقسیم ہوگی۔ ان کے مطابق یہ اختلافات بعض اوقات اس قدر شدت اختیار کرجاتے ہیں کہ لوگوں کے سماجی تعلقات بھی خراب ہوجاتے ہیں۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ بیرون ملک پاکستان کی سیاسی جماعتیں قائم نہ جائیں بلکہ وہاں ان کی پہچان صرف پاکستانی کی حیثیت سے ہو۔ یہی سوچ سویڈن میں مقیم پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر محمد نواز اور بہت سے دوسرے سنجیدہ اور اہل علم کی ہے۔بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنی بساط کے مطابق اپنے وطن عزیز کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں کرتے رہیں گے کیونکہ ان کے دل میں پاکستان دھڑکتا ہے۔

انہیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں تقسیم نہ کریں اور سکون سے رہنے دیں۔ ان سے سیاسی قائدین کے زندہ باد کے نعرے لگوانے کی بجائے صرف پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے دیجئے اور ان کے ہاتھ میں صرف ایک ہی پرچم رہنے دیجیے۔
احباب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بچوں کے لیے میری کتاب سبق آموز کہانیاں کا فارسی زبان میں بھی ترجمہ شائع ہو گیا اور یہ آٹھویں زبان ہے جس میں یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔

اردو کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا ہے اور اب نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور شکر ادا کرتا ہوں اور اپنے قارئین کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے یہ پذیرائی بخشی۔ آخر میں ایک اہم معاملہ جو حکومت پاکستان کے نوٹس میں لانے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ جو بہتر اقدامات کئے جارہے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔

وزیر ا عظم عمران خان اور وفاقی وزیر تعلیم و ثقافت شفقت محمود کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہیں گے کہ دنیا کی چودہ یونیورسٹیوں میں قائداعظم اور علامہ اقبال سے منسوب چیئر قائم ہیں جن میں سے نوے فی صد خالی ہیں۔ جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ میں اقبال چئیر چار سال سے خالی ہے۔ سابق حکومت سے بھی متعدد بار گزراشات کیں اور جرمنی میں مقیم صحافی، ادیب اور شاعر جناب اقبال حیدر نے کئی بار توجہ مبذول کروائی لیکن اقبال فراموش حکومت کی بے حسی برقرار رہی۔ اب آپ کی حکومت جو فکر اقبال کو اپنا رہبر سمجھتی ہے بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ فوری طور پر کسی ماہر اقبالیات کی ہائیڈل برگ یونیوسٹی میں اقبال چئیر کے لیے تقرری کردی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :