رسمی وعدہ

بدھ 26 اگست 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

14 اگست 2020 کو وہ صبح سویرے اٹھا ۔ اور بہت اعلی قسم کا لباس زیب تن کیا۔ نیو برانڈڈ جوتے پہنے اور پاکستان کے قومی جھنڈے والا بیچ دل پے لگا کے چالیس کروڑ کے گاڑی میں بیٹھ کے اس فنکشن کے لیے روانہ ہوا جس میں اس کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ وہاں پر اور بھی بہت سے اس سے کم یا اوپر گریڈ کے افسر تھے ۔ وہ وہاں جا کے سب سے ملا ۔

سب نے ایک دوسرے کو جشن ازدی کی مبارک باد دی۔ اور اپنے اپنے باری میں تقریر کرنے لگے ۔ جس سے دل میں گرم جوشی اور خون میں تیزی پیدا ہورہی تھی ۔ جب اس کی باری ائی تو یہ سٹیج پر تقریر کرنے لگا ۔ جنگ ازادی سے لے کے 2020 تک یہ سب کچھ اس نے اپنی  لکھی ہوئی تقریر میں بیان کیا  ۔ لیکن جو بیان کرنا تھا ۔ وہ وہ نہ کہہ سکا۔ ادھر کونے میں ایک غریب پڑھا لکھا نوجوان جو بہت منت سماجت کے بعد صاحب نے اپنے ساتھ دس ہزار ماہوار پر پرسنل پرائیویٹ سیکرٹری رکھا ہوا تھا۔

(جاری ہے)

اگر چی وہ تعلیم اور قابلیت میں اس سے زیادہ تھا۔ لیکن غریبی اور سفارش کے فقدان کی وجہ سے وہ دسویں پاس صاحب کا  پرائیویٹ پرسنل سیکرٹری تھا۔  اس کے کانوں میں اس کی تقریر کچھ اور طرح سے سنائی دی۔ مثلا یہ صاحب تقریر میں فرما رہے تھے ۔ کہ او اج سے وعدہ کرتے ہیں کہ سفارش اور اقرباءپروری والے اس کلچر کو ختم کرینگے ۔ جبکہ نوجوان کیونکہ دل سے سن رہا تھا اور صاحب کے کردار کے بارے میں خوب جانتا تھا کو ایسا لگا کہ صاحب بول رہے ہوں۔

کہ اج سے سب وعدہ کرتے ہیں ۔ کہ سفارش اور رشوت کو عام کرینگے ۔ جس کے پاس رشوت اور سفارش نہ ہو۔ اس کا کا م کرنے والا مجرم ہوگا۔ یہ پاکستان ہمیں بڑی قربانی اور محنت سے ملا ہے ۔ اتنی ہی محنت سے اسے  مل بانٹ کے کھانا ہے۔ اس ملک میں غریب کا کوئی حق نہیں جہاں غریب دیکھو وہی پر اسے ختم کرو ۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے ملک کو بدنام کررہے ہیں ۔ ان کے پاس نہ کھانے کو روٹی ہے اور نہ رہنے کی جگہ ، اور سرکاری ہسپتالوں میں ان کی وجہ سے بہت رش ہوتا ہے ۔

اور اگر غریب کا بچہ پڑھے گا میرٹ ہوگا قانون ہوگا تو وہ بڑا افسر بنے گا تو ہمارے بچوں کا نوکر کون ہوگا۔ کہاں سے ہم لے کے ایئنگے غریب پی ایچ ڈی اور ماسٹر ڈگری والا پرسنل سیکرٹری وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یہ وہ الفاظ تھے جو مجمعے میں بیھٹا یہ نوجوان اور اس جیسے دوسرے ایماندار اور غریب لوگ سن رہے تھے ۔ باقی سب تو جو اس کے منہ سے نکل رہا تھا ۔ اس پے تالی اور داد دی رہے تھے ۔

تقریر کے بعد سب نے اس کو داد دی اور وہ سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر چلنے لگا کہ دیکھو فلاں صاحب نے کتنا اچھا اور جاندار تقریر کی ۔ ہر طرف سے مبارک باد اور ٹیلیفون انے لگے اور صاحب سب کا شکریہ اور حب الوطنی پر باتیں کرنے لگے ۔۔
لیکن اگلی صبح رات گئی بات گئی کی تصدیق کرتے ہوئے صاحب سیکرٹری سے پوچھنے لگے کہ فلاں شخص پیسے لائے ہے کہ نہیں ۔

اور فلاں شخص نے زمین نام پر ٹرانسفر کیا ہے کہ نہیں ۔ صاحب کل کا تقریر بھول کے حب الوطنی میں لگ جاتے ہیں اور اگلے یوم الوطنی تک خوب حب الوطنی مناتے ہیں ۔۔
یہ ہے میرے وطن کا حال۔۔۔وہ وطن جو میرے بڑوں کے خون سے ازاد ہوا ۔ وہ وطن جس کے لیے میرے بڑوں نے سینوں پے گولیاں کھائی۔ وہ وطن جس کے لیے میرے رہنماوں کے عزت اور وقار قربان ہوا۔ ۔۔

۔۔
یہ ملک کیا اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہاں انصاف ہوگا ؟۔ یہاں قانون ہوگا ۔یہاں امیر غریب برابر ہوگا۔ کیا اس کا مطلب "لاالہ الا اللہ "نہ تھا؟۔ اور کیا یہ ملک صرف بیروکریسی کے لیے بنا تھا؟۔ کیا یہ ملک صرف سفارش اور پارٹی بازی کے لیے بنا تھا؟ کیا ہم نے 14 اگست 1947 کو اللہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اللہ اپ نے تو ہمیں اپنے ازاد ملک سے نوازا لیکن اب ہم ان کا وہ حشر کرنے والے ہیں ۔

کہ خود یہ دھرتی ہم پر روئی گی ۔ یہ زمین ہم سے نجات مانگی گی ۔کہ اے اللہ یہ کسے مسلمان اور پاکستانی ہیں۔۔۔
ہم لوگ یوم ازادی تو جوش وخروش سے مناتے ہیں لیکن اگلے دن سے اس کو لوٹنے میں لگ جاتے ہیں ۔ یہ پبلیک ٹرانسپورٹ کس کا ہے ۔ یہ روڈ اور موٹروے کس کا ہے ۔ اور کس کے پیسوں سے بنے ہیں ۔ ہم وہ لوگ ہے کہ ہم خود اپنے اپ کے دشمن ہیں ۔ ریلی جلسوں میں اپنے پیسوں سے بنائے ہوئے چیزیں نزر اتش کرتے ہیں ۔

ہم اج اپنے پارٹی سے تو بہت وفادار ہیں لیکن اپنے وطن سے محبت صرف نام کی رہ گئی ہیں ہے ہم میں ۔ کب تک یہ لوگ ہم کو بے وقوف بناتے رہے گے کب تک ہم اپنے زمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے کب تک یہ لوگ ہم کو استعمال کرتے رہے گے ۔دوستوں  اپنے انے والے نسلوں کے لیے پارٹی کلچر سے نکل ائے اور غلط کو غلط اور ٹھیک کو ٹھیک دیکھنا اور کہنا شروع کریں  اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ۔۔۔
یہ ملک ہمارا ہیں ۔ یہ دھرتی ہماری ہیں ۔ اس کا ہر چیز اور ہر بلڈنگ ہمارا ہے۔ اور اس کا ہر افسر اور حکومتی کارندہ ہمارا اور ہمارے ملک کا نوکر ہے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :