نسلوں کی تلاش

بدھ 16 ستمبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

تربیت ہی اس کی ایسی ہوئی تھی۔ کہ اس کے لئے چھوٹا بڑا سب برابر تھے۔ بزرگ صرف اسے یہ سمجھا رہا تھا۔ کہ بیٹا گالی گلوچ اچھی بات نہیں ۔ اور تہزیب یافتہ قوم ایسا نہیں کرتی۔ اس نے بزرگ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ۔ اور پھر بولنے لگا۔ کہ کون ہو تم ؟ ۔ تمھارا حیثیت کیا ہے۔  ہاتھ ریڑھی پے فروٹ فروخت کرنے والا اور ہم کو صاحب جی صاحب جی بولنے والا ایک محتاج اور زلیل شخص ہو تم ۔

تم کو کیا معلوم ان پڑھ کہے کے۔ یہ اور بات تھی کہ اس کا باپ ایک بڑی عہدی پر سرکاری خزانے کو لوٹ رہا تھا۔ چور تھا اس کا باپ جو 22کروڑ عوام کا پیسا چورا رہا تھا۔ اور اس کا بیٹا مغرور تھا۔ کہ ان کی حیثیت اس ریڑھی والے سے اچھا ہے۔ لیکن وہاں پر موجود سب لوگ اور اللہ جانتا تھا ۔

(جاری ہے)

کہ اس بابے کا رزق حلال پاک اور عزت والاہے۔ بابے پر زندگی میں جو دن گزرے تھے ان کا سبق اور ان سے حاصل ہونے والی تجربے اس کے تعلیم سے بہت ہی زیادہ تھی۔

پر بابا جی کچھ نہیں بول رہے تھے ۔ یہ امیرزادہ گالیاں بک رہا تھا۔ بابا جی کو غریب اور ہمارے نوکر کا طنعہ دے رہا تھا ۔ لیکن بابا جی کچھ نہیں بول رہا تھا۔ لیکن وہاں پر موجود ہر شخص اس امیرزادے کی تربیت کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
ہمارے معاشرے میں لوگ پیسوں پر عہدے پر اور خاندان پر بہت فخر کرنے لگے ہیں ۔ ایک ادمی چوری کرکے مال بناتا ہے۔

حرام اور حلال سے بے نیاز کوٹھیاں اور جاگیریں بناتا ہے۔ اور آس پڑوس میں حاجی صاحب کے نام سے مشہور ہو جاتا ہے۔ جو حقیقت میں نماز پڑھنے بھی مسجد نہیں جاتا۔ لیکن چوری سے بنائے ہوئے دولت سے پھر وہ علاقے کے بڑے بڑے جرگے اور فیصلے کرتا ہے۔ اگرچہ وہ فیصلے حقیقت میں انصاف سے بہت دور ہوتے ہے۔ لیکن ہر جگہ اسکی واہ واہ ہوتی ہے۔ لیکن ایک بات اٹل اور حقیقت ہے ۔

کہ ان کے بچے اکثر تربیت کے کمی کا شکار ہوتے ہیں ۔ جو زمانے بھر میں ان کے زلت کا سبب بنتے ہیں۔۔۔۔
وہ مشہور قول ہے۔ کہ عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہے۔ جن کی تربیت ایسی ہو۔ کہ باپ بنک میں ملازمت کر رہا ہو۔ اور ماں بیٹے کے لیے بکری خریدے۔ تو وہ کیونکر علامہ محمد اقبال نہ بنے۔ یا سکول سے بچہ تھکا ہارا گھر لوٹ ائے اور اسکی ماں اسے بولے بیٹا پہلے نماز پڑھو۔

اللہ سے دعا مانگو اور اللہ سے روٹی مانگو ۔ اللہ روٹی دے گا۔ تو پھر کیوں ایسے تربیت کے بعد خالی الماری میں اللہ اپنے قدرت اور طاقت سے روٹی نہ پہنچائے۔ سب سے ضروری کام اولاد کی تربیت یے۔ اکثر لوگ بولتے ہیں کہ بیٹے سے خاندان اگے جاتا ہے ۔ لیکن میرے نظر میں تربیت سے نسلوں اور خاندانوں کی بقا ہے۔ کیونکہ اکثر نیک ادمی کا بیٹا چور اور ڈاکو بن جاتا ہے جبکہ ڈاکو اور چور کا اولاد خادم دین ۔

۔۔۔۔
روٹی اور کپڑوں کے ساتھ ساتھ اولاد کی تربیت بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اگے یہ بچے جو کرتے ہیں ۔ اس میں ہمارا تربیت اور پرورش بولتا ہے۔ کوئی اگر اچھا کام کرے ہر کسی سے اخلاق سے پیش ائے تو سب لوگ کہتے ہیں دیکھو عظیم باپ کا زبردست بیٹا ہے۔ لیکن اگر اس کے عکس ہو تو انگلیاں اکثر خاندان اور بڑوں پر اٹھائی جاتی ہیں ۔ ۔۔۔
دوستوں جہاں تک ہوسکے اچھے اخلاق اور اطوار سے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے ۔

شیخ عاطف احمد صاحب فرماتے ہیں "کہ جب دس کتے بھونک رہے ہوں ۔ تو گیارواں نہیں بنا "
افلاطونوں کو ان کے حال پر چھوڑنا چاہیے ۔ ان کا کام صرف نقطہ چینی ہوتی ہیں۔ ہر کسی کے ساتھ پیار ومحبت اور اچھے اخلاق سے پیش انا چاہیے اور اپنے چھوٹوں کا بہتر طریقے سے پرورش اور تربیت کرنی چاہیے۔۔۔۔۔
دوستوں میں یہ تحریریں اسلئے نہیں لکھتا کہ میں مشہور ہو جاو۔

مجھے بہت لائک ملے ۔ یا کوئی میرا واہ واہ کریں۔ میں اپنے بس کے مطابق اللہ کی رضا کے لیے اچھی باتیں شئر کرتا ہو۔ اگر اپ کو بھی اچھے لگے تو اگے شئر کرتے جائے تاکہ بہت سے لوگوں تک ہماری اواز پہنچے اور اللہ ہمیں جزائے خیر دے۔ اس کے علاوہ اگر اپ اپنے تحریرے لوگوں کے ساتھ شئر کرنا چاہتے ہیں ۔ تو مجھے سینڈ کرتے رہے میں اسے اس پیج سے شئر کرونگا۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :