"دماغ میں رہائش"

جمعہ 25 ستمبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

ایک وقت زندگی میں ایسا بھی آتا ہے ۔ جب اپ کو لوگوں سے ملنا ان سے باتیں کرنا ان کے ساتھ وقت گزرنا بہت برا لگتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ آپ کے مزاج اپ کے طبیعت اور اپ کے نظریے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اپ چاہتے ہے کہ کہی دور اکیلا کسی ویران مقام میں گھنٹوں نہیں دنوں نہیں بلکہ سالوں گزاروں۔۔۔ اپ کو ہر کوئی احمق بے وقوف اور جاہل لگنے لگتا ہے۔

اپ کے خیال میں ان کے ساتھ رہنا ۔ ان کے ساتھ وقت گزرنا اور ان سے تعلق بنانا وقت کا ضائع اور فضول ہے۔ اپ ان کے باتوں پر سوچتے ہیں۔ ان پر غور کرتے ہیں۔ ان میں نقص نکلتے ہیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے اپنے عقل اور سوچ کے مطابق نظریہ قائم کرتے ہیں۔ اور رفتہ رفتہ ان سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔ اور پھر یہ دوری نفرت اور تعصب میں بدل جاتی ہے۔

(جاری ہے)

اور پھر ان کے اچھے اور صحیح کاموں کو بھی غلط رنگ دینا شروع کرتے ہیں۔

اور خود کو عقل کا سر چشمہ  سمجھ کے ان کے دماغ میں رہنے والے سوچوں کے بارے میں اپنا ایک سوچ اور خیال بناتے ہیں۔ پھر کبھی کبھی کسی نزدیک شخص کو ان کے بارے میں بتانا شروع کرتے ہے۔ کہ فلاں جو کرتا ہے۔ یا جو کہتا ہے۔ مجھے پہلے ہی سے اس کا علم ہوتا ہے۔ اب اگر نزدیکی شخص سوال کرے کہ کیسے؟ تو اکثر جواب ہوتا ہے۔ میں ان کے دماغ میں بیھٹا ہو۔ وہ جو بولتا ہے ۔

میں اسے ہر طرف سے دیکھتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ارے بھائی وہ دماغ ہے ۔ کوئی اپارٹمنٹ یا ہوٹل کا کمرہ نہیں۔۔۔
 اپ لوگوں نے کبھی غور و فکر کیا ہے ۔ کہ یہ کیوں ہوتا ہے؟
ہم کیوں لوگوں کے بارے میں ایسا سوچتے ہیں؟۔۔۔
سب سے پہلے تو اس سوچ والے لوگوں کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے کسی اچھے دماغی ڈاکٹر یا سائکاٹریس کی۔۔۔۔
میں نے جب ان باتوں اور خیالوں پر سوچنا شروع کیا تو ایک الگ ہی نظریا اور سوچ میرے سامنے انے لگا۔

یہ جو افلاطون قسم کے  لوگ ہوتے ہیں۔ یہ اکثر متکبر اور نالائق ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے اپ کے علاوہ باقی ساری دنیا میں خامی اور کمزوری نظر آتی ہیں۔ ان کو اپنے اپ پر بڑا فخر ہوتا ہے۔ اور ان کے سوچ کے مطابق یہ دی بیسٹ ہوتے ہیں۔ ان کو ہر چیز اور کام کے بارے میں علم ہوتا ہے۔ تنقید کو یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اور ہر کسی سے اپنے علم اور عقل کی داد کی طلب گار ہوتے ہیں۔

جو لوگ صرف اسے وجہ سے دیتے ہیں کہ وہ ان کے منہ ہی نہیں لگنا چاہتے۔۔۔۔
ہم کو ہمیشہ دوسروں میں غلطیاں کیوں نظر آتی ہے؟ ہم اپنے اپ کو کیوں زمہ دار نہیں ٹھہراتے؟ کیوں ہم دوسروں کی زندگی کو بے جا روک ٹوک سے جہنم بناتے ہیں ؟ کیوں ہم لوگوں سے اپنے مزاج کے مطابق امید رکھتے ہیں؟۔  
ہم لوگ تہجد پڑھتے ہیں ۔ نفلی روزے بھی بڑے شوق سے رکھتے ہیں۔

لیکن معاملات کبھی پاک اور صاف نہیں رکھتے ۔ اپنے سوچ کو کبھی خالص نہیں کرتے ۔ حسد کو اپنے دل سے کبھی نہیں نکلتے ۔ تو کیوں اللہ ہماری مدد کریگا۔ کیوں اللہ ہم کو سرخرو کریگا ۔ اور کیوں اللہ ہم کو رحمت کے نظر سے دیکھے گا۔ دوسروں کو پرکنا چھوڑ دو ۔ دوسروں کو سمجھنا شروع کرو۔ ضروری نہیں کہ ہر بار دوسرا غلط ہو۔ کبھی کبھی ہم بھی غلط ہوتے ہیں۔

دوسروں کی زندگی میں جانکنا چھوڑو ۔ اپنے سوچ اور تربیت کو دوسرے کو برا اور غلط کہنے سے ظاہر مت کرو ۔ کیونکہ لوگ سامنے کچھ نہیں بولتے لیکن پیٹ پیچھے اپ کے تربیت اخلاق اور خاندان پر انگلی اٹھاتے ہیں ۔ اگر کسی کے بارے میں سوچنا ہی ہے تو ان کے مجبوری کو سمجھو۔ ان کے تکلیف کا خیال کرو اور ان کے زندگی میں اسانیاں لانے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :