دور حاضر کا سب سے بڑا دشمن

پیر 14 دسمبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

سگریٹ ہاتھ میں پکڑے جوگر شوز پہن کے ڈائری ہاتھ میں تھامے وہ زمین سے دو فٹ اونچا چل رہا تھا۔ خون میں گرمی چہرے پر سرخی اور پاؤں میں بہت دم تھا۔ گلے میں  ہار لٹکا کے ہاتھ پر گھڑی اور چوڑی بہت نفیس انداز سے پہنی ہوئی وہ اپنے دوستوں سے ملنے کے لئے جا رہا تھا۔ ان کے سارے دوست اس کے انتظار میں تھے ۔ بہت اچھی پارٹی تھی ۔ سارے دوست سگریٹ سلگا سلگا کے پی رہے تھے۔

ایک دوست نے جیب سے کچھ کالا سا چیز نکلا اور دوستوں کو دیکھا کے بولنے لگا ۔ اسے سگریٹ میں ملا کے پینے سے بہت مزہ آتا ہے۔ بہت سرور اور راحت ملتی ہے۔ ان کے سب دوستوں کا تعلق بڑے خاندانوں سے تھا  ۔ بس ایک یہ تھا جو مڈل کلاس گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ چھ بہنوں  ،اور گھر بھر کی ذمہ داری اسے اپنے کندھوں پر لینی تھی۔

(جاری ہے)

پر اب اسے  صرف پڑھائی کے لیے فارغ چھوڑا گیا تھا۔

اس کا والد صاحب دو دو نوکریاں کر کے گھر کی ضروریات اور ان کا تعلیمی خرچ بہت خوب انداز سے پورا کر رہا تھا۔ سب دوستوں نے کہا چلو تھوڑا سرور اور مزے کے لئے ملاتے ہے اسے سگریٹ میں۔۔۔
اس کو سگریٹ میں ملا کے پیا تو بہت مزہ آیا اور پھر یہ روز کا معمول بن گیا ۔ اور معمول بنے کے بعد اس میں وہ مزہ نہ رہا تو ائس اور شراب کی طلب ہوئی ۔ وہ بھی جب بدن میں اپنا گھر کر گیا تو اسمیں وہ مزہ نہ رہا جو پہلے پہل تھا ۔

تو ایک دن ایک دوست کچھ پاؤڈر کی شکل والی چیز لایا اور اس کا طریقہ بتانے لگا۔ ایک دوست نے ڈرتے ڈرتے بولا یہ تو پاؤڈر ہے۔ اس کو پینے سے ہم بھی اور نشیوں کی طرح برباد ہو جائیں گے۔ سب دوست ان کے احمقانہ سوچ پر ہنسنے لگے ۔ اور اسے سمجھانے لگے بھائی وہ عادی ہیں وہ مجبور ہے اس کے بغیر ان کا گزرا مشکل ہے ہم تو تھوڑا شغل میلہ لگاینگے ۔ اور پھر چھوڑ دینگے۔

جب چاہے ہم اسے چھوڑ سکتے ہیں۔ اور سب اتفاق اور اتحاد سے پینے لگے۔۔۔
لیکن اس کے بعد دنیا نے دیکھا جس پر چھ بہنوں کو رخصت کرنے کا بوجھ انے والا تھا ۔ وہ بہنوں کا سامان وغیرہ چوری کر کے نشہ خریدنے لگا۔ باقی تو امیر گھرانوں سے تھے کسی کو علاج کے لئے انگلینڈ تو کسی کو امریکہ بھیج دیا گیا۔غریب کا بچہ تھا ارمانوں کو ساتھ لے کے مر گیا۔

ایک سگریٹ،  ایک شغل میلے ، اور ایک سرور کے پل سے شروع ہونے والا سفر موت پر تمام ہوا۔۔۔۔۔
آجکل ہمارے معاشرے میں منشیات نوشی بہت زیادہ پھیل گئی ہے۔ ہر دوسرا تیسرا جوان کسی نہ کسی نشہ آور چیز کا عادی ہو چکا ہے۔ دنیاوی محبت میں ناکامی مقابلے میں ہار  وغیرہ اور انڈین فلموں کا دیکھا دیکھی انسان سے دیودس بن رہے ہیں ۔ جس سے ہم امید لگا رہے تھے۔

جو ہمارے ادھورے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے تھے وہ خود نشے کی لت میں مبتلا ہے۔ ڈیلر دھڑا دھڑ منشیات فروخت کر رہے ہیں۔ اور ہمارے انے والی نسل کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ جو سورج ڈھلنے کے ساتھ کھیلوں میں مصروف ہو جاتے تھے وہ جوان شام کو کسی کچرے کے ڈیر یا گندی نالی میں بیٹھ کر نشہ کرتے ہیں۔ اور اپنے مستقبل اور خاندان کو تباہ کر رہے ہیں۔

اور یہ سوچ کہ میں جب چاہوں اس نشے کو  چھوڑ سکتا ہو۔ اس کو اور بڑھا رہا ہے۔۔۔۔۔
خدا کے لئے اپنے بس اور طاقت کے مطابق اس کے خلاف جہاد شروع کریں۔ اپنے انے والے نسل کو تاریکیوں اور بربادی سے بچائے۔۔ اپنے بچوں پر خاص نظر رکھے وہ کسی کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ کسی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کے دوست کون ہے۔ کیوں کہ شغل میلے کے لیے لگایا ہوا سگریٹ موت کے منزل پر پھر بجھتا ہے۔ تھوڑے وقت کا سرور اور مزہ پوری زندگی لے لیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :