پڑھے لکھے ان پڑھ

ہفتہ 13 مارچ 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

بارش کی بوندے جب تیز ہونے لگتی ہے۔ تو مجھے کسی اور جہاں میں لے جاتے ہیں۔ بارش جب دو تین دن تک مہمان ہوتا ہے ۔ تو بارش سے مزہ لینے کے بجائے میں کھو جاتا ہوں۔ اپنی زندگی کی حسین یادوں میں ، سنہرے اور سونے سے لکھنے والے ماضی میں ۔ ،
میں ایک چھوٹے مگر پیارے  سے گاؤں رامیال میں رہتا ہوں۔ یہ چکدرہ جی ٹی روڈ سے تقریبا دو کلومیٹر دور ایک سرسبز و شاداب گاؤں ہے۔

اس کے لوگ ماشاءاللہ بہت پیار کرنے والے اور اپنائیت سے بھرے ہوئے ہیں۔۔۔ اج بارش برس رہی تھی ہم تو میلوں دور بہت دور زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر گھومتے ہوئے تصاویر سے پتہ لگ رہا ہے کہ بہت زیادہ بارش برس رہی ہے۔۔۔تو پتہ نہیں کب میں اپنے بچپن کے زمانے میں کھو گیا۔ کیونکہ ہمارا گاؤں چھوٹا سا تھا اور لوگ بھی سارے لیبر کا کام کرتے تھے۔

(جاری ہے)

تو سارے گھر کچے تھے ۔ مٹی کے بنے ہوئے خوبصورت گھر جب بارش برسانا شروع کرتا تھا تو سارے مکانوں کی چھتیں رو رو کر ٹپکنے لگتے تھے۔ اور ہم بہت خوش ہوتے تھے کہ کسی جگہ سے پانی ٹپک رہا ہوں۔ اور ہم وہاں پلاسٹک کی تھیلی باندھ کے ایک دھاگہ اس کے ساتھ باندھ کے پانی کو ایک برتن تک پہنچا دیتے تھے۔ یہ بہت بڑا مشن ہوتا تھا۔ لیکن جب بارش زیادہ دن کا مہمان ہوتا تھا۔

تو سارے چھت پلاسٹک کا لباس پہن لیتے تھے۔۔۔
بہت زیادہ غربت تھی ۔ نئے کپڑے خریدنا صرف عیدالفطر تک مخصوص تھی۔ کسی کے پاس گاڑی نہیں ہوتی تھی ۔ گاڑی کیا روڈ بھی نہیں تھا۔ صبح سویرے پیدل ادھا گھنٹہ تقریبا پیدل چل کے چکدرہ جو ایک چھوٹا سا بازار تھا پہنچ جاتے تھے۔ لیکن محبت انتہا کی تھی ۔ سارے گاؤں کے بڑے نماز فجر ادا کر کے قومی ہجرے میں بیٹھ جاتے تھے۔

ایک بوسیدہ سا پرانا ہجرہ جو ان بزرگوں کی وجہ سے عالیشان بنگلے سے بھی زیادہ قیمتی لگتا تھا میں اگ جلا کے بیٹھ جائے کرتے تھے۔ باتیں مزاق اور محبت انتہا کی ہوتی تھی۔ چھوٹا سا چھوٹا فنکشن ہو یا فوتگی وغیرہ کوئی بھی گاؤں سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ ڈرتے تھے کوئی دیکھ لے گا ۔ اور فنکشن یا فوتگی والے کو بتا دے گا۔ تو وہ ناراض ہو جائے گا۔ چھوٹے بڑے کا بہت تمیز تھا ۔

نوجوان اکثر عصر کے وقت ہجرے کے صحن میں چارپائیاں لگا کے وہاں سے رفوچکر ہو جاتے تھے۔ وہ وہاں بیٹھتے نہیں کہ بڑوں کی باتیں سنے ۔۔ ان بزرگوں کا زمانہ محبت سے بھرا ہوا تھا ۔تعلیم زیادہ نہ تھی روپیہ پیسا گاڑی بنگلہ کچھ نہیں تھا لیکن وہ کچھ تھا جس کا اج کے نسل کو تلاش اور ضرورت ہے۔ یہ بزرگ اپنے ساتھ پیار محبت ہمدردی اتفاق بھائی چارہ سب کچھ لے گئے ۔

ہم اکثر بولتے تھے ۔ یہ بڑے بزرگ ان پڑھ ہیں ہمارا داور آئے گا تو ہم اپنے گاؤں اپنے لوگوں کے لئے بہت مفید ہونگے۔۔۔۔
 لیکن یہ ایک نہ پورا ہونے والا  خواب تھا اور ہے ۔ کیونکہ جب پڑھے لکھے اور مالدار لوگوں کی ہاتھوں میں یہ اختیار ایا تو وہ فرقوں میں،  نسلوں میں،  حیثیتوں میں،  سٹیٹس میں تقسیم ہوگئے ۔ وہ بڑے بزرگوں والا پیار وہ بڑے بزرگوں والا بھائی چارہ پس پشت ڈال کے دنیا کے دو دن کے زندگی کے لیے مکاری اور دھوکہ بازی پر اتر آئے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ اکثر سنے میں آتا ہے کہ ہمارے حکمران  چور  ہے کرپٹ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقت میں سب  سے بڑا کرپٹ میں اور آپ ہیں۔ ہم رشتوں میں،  بھائی چارے میں، احساسات میں کرپشن کرتے ہیں۔ ان کے کرپشن کے لئے تو نیب ایک ادارہ ہے لیکن سماجی کرپشن کے لئے بھی ایک ادارہ ہونا چاہیے۔ پہلے پہل ایک ادارہ ہوا کرتا تھا ضمیر جو اب ممکن ہے ہم سب کا مر چکا ہے۔

کسی کا بھی زندہ نہیں یہ ضمیر ۔  میں سب سے پہلے خود سے شروع کرتا ہوں،  پھر محلے ، گاؤں، شہر، ملک سب کا ضمیر مردہ یا بے ہوش  ہوچکا ہے۔۔۔۔
اللہ کے لئے اپنے انے والے نسل کے بہتر مستقبل کے لئے میں اپنے گاؤں اور ملک کے نوجوانوں کو درخواست کرتا ہوں۔ کہ پیسے رعب اور  سٹیٹس کے لئے شروع ہونے والے جنگ سے باہر او۔ ایک دوسری دنیا تمھاری انتظار میں ہے۔

جہاں صرف پیار ، بھائی چارہ اور ہمدردی ہے۔ کیوں اپنے انے والے نسل کو تحفے میں نفرت ، نسل پرستی اور بے ضمیری دے رہے ہوں۔ کیوں انسان کو  ایک دوسرے سے دور کر رہے ہوں۔ اج میں کیوں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اپنے بڑے بزرگوں پر ، کیونکہ ان میں ایک نہیں ہزاروں باتیں تھی جو ان پر لکھنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن کل ہمارا نام و نشان نہیں رہے گا۔ کوئی یاد کرنے والا، ہم پر لکھنے والا نہیں رہے گا کیونکہ ہم کر کیا رہے ہیں ہم پھیلا کیا رہے ہیں صرف نفرت اور بیگانگی۔۔۔۔۔۔
محبت ، اپنائیت ، دوسرے کا احساس،  اور بھائی چارہ ہی وہ لوازمات ہے جو ہمارے انے والے نسل اور ہمارے لئے سانس کی حد تک ضروری ہیں۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :