خیالی کہانیاں

جمعہ 28 مئی 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں بہت امیر اور کامیاب شخص رہتا تھا۔ وہ بہت مالدار اور امیر شخص تھا۔ بہت بڑے بنگلے میں رہتا تھا۔ان کے ہر کام کے لئے الگ خادم ہوا کرتا تھا ۔ وغیرہ وغیرہ،  یہ کہانیاں یہ قصے سن کے جو بچہ جوان ہو جائے وہ فلسطین اور کشمیر کیا آزاد کریگا وہ اپنی چارپائی سے بھی اٹھنے کے لیے نوکر چاکر کا سوچے گا۔وہ خود ان قصے کہانیوں کا ایک کردار  اختیار کر کے اس کی طرح زندگی کا خواب دیکھے گا۔

۔۔۔
ہم وہ قوم ہے ہم وہ جنریشن ہے جو ایک دفعہ کا ذکر ہے کو بہت غور سے بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ ہم فرضی کامیاب اور مالدار لوگوں کی کہانیاں بہت شوق سے سنتے ہیں۔ ہم ایک دفعہ کے ذکر کو تو بہت اہمیت اور وقت دیتے ہیں لیکن جو کئی دفعہ کا ذکر ہوتا ہے۔ جو انسو اور خون پسینے کے روداد ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

جو کوئی حقیقت میں برداشت کرکے خود جے کے اور راتوں کو جاگ کے گمنام راستوں کے گمنام مسافت طے کر کے نام وار اور کامیاب ہوتا ہے ۔

ان کا ہم مذاق اڑاتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہے جو بنے بنائے قصے کہانیوں پر روتے ہیں اسے محسوس کرتے ہیں۔ ان کی کرداروں کی طرح بننا اور زندگی گزرنا چاہتے ہیں لیکن حقیقی ہیروز حقیقی مسافروں کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔۔
ہم وہ جنریشن ہے جو بنے بنائے خیالی انگریزوں کے بے جا قصے شوق سے اختیار کرتے ہیں۔ اس کو اپناتے ہیں۔ کامیابی کے لئے ہر وقت کامیاب کامیاب کا رٹ لگا کے نہیں تھکتے لیکن گمنام راستوں میں ناکام لوگوں کی بیوگرافی نہیں دیکھتے کہ کیوں ہوا ناکام ،مجھ سے آگے چلنے والا۔

کیا غلطی کی تھی جس کی وجہ سے  وہ ناکام ہوا  ۔ کیا کمی تھے اس میں جو مجھ میں نہیں ہونی چاہئے۔۔۔۔
سب سے پہلے تو ہم نے کامیابی کو دولت اور شہرت سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے بعد دوسرا قدم ہمارا انگریزوں اور کفار کا لائف سٹائل،  اور تکبر تو پوچھے نہ، ہم میں سے کوئی بھی اپنے بچے کو حضرت لقمان کی نصحیت نہیں سناتا۔ کوئی اپنے بچے کو سلطان صلاح الدین ایوبی کا واقعہ بیان نہیں کرتا کوئی محمد بن قاسم بننے کے لئے تیار نہیں۔

کوئی طارق بن زیاد کی طرح کشتیوں کو جلانے کی ہمت نہیں کر رہا،  کوئی اپنے بیٹے کو غازی علم دین کے بارے میں بتانے سے گریز کر رہا ہے اور کوئی جہاد کے بارے میں سیکولر نقطہ نظر رکھ رہا ہے اور سڑک کے بیچ کھڑا ہو کے فلسطین کو آزاد کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ایک فلسطین ایک کشمیر ایک ملک کیا پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے شیر انگریزوں کے بیوگرافی سے بے خبر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیروکار اپنے بچوں کو قرآن و حديث کے ، مسلمان اکابرین کے بارے میں بتاتے تھے۔

وہ مسلمان اکابرین کے قصے واقعات سن کے جوان ہوتے اور شیر کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ پوری دنیا کے ٹیکنالوجی کو زنگ آلود تلواروں سے شکست دینے والے ہمارے اکابرین ہمارے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن افسوس اس میں ہمارے لئے دلچسپی رکھنا ان کو پڑھنا ان پر عمل کرنا مشکل بنایا گیا ہے۔
ہمارا تعلیم ہمارا شوق گاڑی بنگلے سے رعب دعب سے آگے نہیں جاتا ۔

ہماری کامیابی ہماری منزل ہی غلط ہے۔ہم بے منزل راہوں کے بے جا مسافر ہے۔ جس کا کام صرف چیونٹی کی طرح چلنا ہے۔ جس کا کام  موبائل اور دوسرے ڈیوائسز پر اپنا ٹائم برباد کرنا ہے۔ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے لائف سٹائل اپنانا ہے اور لوگوں پر صرف رعب دعب کے لیے بننا سنوارنا یہاں تک کہ جینا ہے۔
اللہ کے لئے اپنے انے والے نسل اور خود کو  کامیاب و کامران اور فاتح بنانے کے لیے بے جا اور من گھڑت کہانیوں سے نکل آئیں۔ کوئی بادشاہ نہیں تھا جو ایسا تھا ویسا تھا۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا اور نہ ہے جو بغیر محنت کے ملک کا بادشاہ بنا۔ یہ سب خیالی اور جھوٹ موٹ کی کہانیاں ہیں۔ خود کو اس قابل بنائے کہ ساری دنیا نہیں آپکی دنیا میں کوئی اپ کو فالو کریں اپ کی مثال دے ۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :