اُلو ،پارلیمنٹ اور عوام ۔۔۔۔۔۔

پیر 18 اکتوبر 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

الّو بھی اللہ کی بے شمار مخلوق میں سے ایک ہے جو اپنی وضع قطع ، اپنی سج دھج، اپنی دیومالائی مذہبی اہمیت کے ساتھ ساتھ اپنی نحوست کے لیے بہت ہی مشہور ہے۔ اسی لیے کسی شخص کو غلطی کرنے پر اسے ’الّو‘ کے لقب سے نواز دیا جاتا ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ کسی کو عقل کا کمتر یا بیوقوف کہنے کے لیے اِس پرندے کا نام کیوں لیا جاتا ہے؟ حالانکہ انسانی نفسیات میں یہ بات شامل ہے کہ بڑی آنکھوں والا اور بڑے سر والا انسان ذہین سمجھا جاتا ہے۔

لیکن الّو کی آنکھیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور سر بھی بڑا ہوتا ہے پھر بھی بیوقوف لوگوں کی مثال اکثر الّو سے ہی دی جاتی ہے۔ عام طور سے عوام الّو کو منحوس پرندہ مانتے ہیں لیکن انگریزی ادب کی بچوں کی کہانیوں( جیسے ’ہیری پاٹر‘ ) میں الّو کو اعلیٰ خوبیوں والا اور عقلمند پرندہ مانا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ہندو مذہب میں الّو کو ’لکشمی دیوی‘ کی سواری مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اْسی پر بیٹھ کر اپنے بھگتوں کے یہاں جاتی ہیں۔


اس کا سائنسی نام Striginae ہوتا ہے۔ ویسے تو یہ 190خاندانوں میں بٹے ہوتے ہیں لیکن 23 خاندان نمایاں ہوتے ہیں ۔یہ مختلف جسامت والے ہوتے ہیں، بہت چھوٹے بونے الّو سے لے کر بھاری بھرکم اور مختلف رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔اس طرح کے الّوؤں کا چہرا گول و بڑا ہوتا ہے دْم چھوٹی ہوتی ہے۔ الّو کے پر دھبّے دار ہونے کی وجہ سے بڑے شکاری پرندوں، باز وغیرہ کی نظر ان پر جلدی نہیں پڑتی۔

اْلّو اپنے سے چھوٹوں کا شکار کرتا ہے اور خود کو شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ چوہے، گلہریاں، خرگوش، چڑیاں، کیڑے مکوڑے وغیرہ کسانوں کے دشمن ہوتے ہیں لیکن الّو ان کو اپنی خوراک بنا کر کروڑوں کا اناج بچاتا ہے اور لوگوں کی مالی مدد کرتا ہے اس لیے الّو کسانوں کا دوست کہلاتا ہے۔ عام طور سے ان کی عمر ایک دو سال ہی ہوتی ہے۔الّو کے نام کے ساتھ کئی محاورے جڑے ہیں جیسے۔

اپنا الّو سیدھا کرنا‘،’الّو بنانا‘، ’الّو بننا‘، ’کاٹھ کا الّو‘،’الّو کی طرح دیدے نچانا‘،’الّو کی ہوشیاری’الّو کا پٹھا‘،’الّو کا ڈھکّن‘، ’کھاٹ پہ بیٹھا الّو، بھر بھر مانگے چلّو‘،’الّو کہیں کا‘، ’الّو پنا‘ وغیرہ۔ ان محاوروں کی تفصیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح الّو ایک سیدھا سادہ پرندہ ہے اْسی طرح سے اس سے متعلق محاورے بھی آسان اور سیدھے سادھے ہیں، ہر کوئی ان کا استعمال کرتا رہتا ہے اُلو ایک وفادار جانور ہے اور اگر انسان اس کے ساتھ پیار کرے تو یہ کبھی بھی دور نہیں جاتا اور وفادار کے ساتھ ساتھ انسان دشمن جو موزی کیڑے مکوڑے ہیں ان کو کھاتا ہے اور انسان کو محفوظ بناتا ہے۔

جو خوشخبری لائے اور عقلمندآدمی تو ہوتا بھی وہ ہے کہ وہ ہمیشہ اچھی خبر دیتاہے اور بُری خبریں پہنچانا وہ دوسروں پر چھوڑ دیتاہے۔ جو شخص فحش اور بُری خبریں پہنچانے میں پہل کرتاہے۔ اُسے اُلو سے تعبیر کیا گیاہے
الّوؤں کی قوت سماعت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کے کان دکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ آنکھوں کے پیچھے پروں کے گچھے میں یہ چھپے ہوتے ہیں۔

رات کے اندھیرے میں اپنے شکار کی ہلکی سی آواز سے سمت کا اندازہ لگا کر اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ان کے پنجے خاص قسم کے ہوتے ہیں جس میں چار نوکیلی انگلیاں دو آگے اور دو پیچھے کی جانب ہوتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر پیچھے والی انگلیوں میں سے ایک کو گھما کر آگے کی جانب کیا جا سکتا ہے۔ان کی چونچ دیگرگوشت خور پرندوں کی طرح نوکیلی اور ٹیڑھی ہوتی ہے۔

پروں سے ڈھکی ہونے کی وجہ سے چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔
"الّو سے تعلق رکھنے والی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے جْھنڈ کو انگریزی میں پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔"
کہتے ہیں کسی گاؤں کے پاس ہی ایک بہت پرانا کنواں تھا اور جدید سائنس نے اس کی قدر ختم کر دی اور اب کوئی بھی اس کنویں پر پانی بھرنے نا جاتا تھا۔وہاں پر ایک شیشم کا بہت پرانا درخت تھا  اور اس پر اُلووں نے گھونسلے بنا لیے اور ان کی تعداد  بہت ذیادہ ہو گئی اور جیسے  ہمارے معاشرے میں اس جانور کو منحوس جانا جاتا ہے ۔

اس لیے اس کو  بیچنے کا فیصلہ کیا گیا ۔درخت پرانا اور لکڑی شاندار تھی اس لیے اس کو اسلام آباد کا ایک سوداگر لے گیا ۔ اسلام آباد میں ایک بہت بڑی گورنمنٹ  کی عمارت بن رہی تھی اور اس عمارت میں اعلی قسم کی لکڑی کی میز اور کرسیاں رکھنی تھیں ۔آخر کار اسی گاؤں کی لکڑی سے بہترین کرسیاں بنوانے کا آرڈر دیا گیا ۔ آج سوچتا ہوں کہ گاؤں سے درخت کاٹا کہ الووں سے جان چھوٹ جائے گی مگر یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ تو اُلو مفروضوں پر قائم باتوں کی وجہ سے منحوس سمجھے جاتے تھے  لیکن ابھی  جو اُلو ان پر بیٹھتے ہیں وہ  لالچی ،جھوٹے ،اور چور  ہیں ۔

اپنے مطلب کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔۔۔۔۔
لاکھوں اور کروڑوں نہیں اربوں روپے کھا جاتے ہیں اور عوام  ان کو اپنا لیڈر بنائے بیٹھی ہے ۔ کاش یہ سیاستدان بھی سمجھیں اور عوام بھی عقل سے کام لے اگر اچھے انسان نہیں بن سکتے تو کم از کم اُلو ہی ٹھیک بن جائیںتا کہ غریب کا بھلا ہو اور ان کی زندگی خوشحال  ہو جائے ۔
آئیے عہد کریں کہ ہم اچھے انسان  بن کر جیئیں گے اور اُلو نہیں بنیں گے، اگر اُلو بننا ہی ہے تو اس کی ایک صفت خاموشی کو اپنا لیا جائے تو کئی مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچ جائیں کیونکہ انسان اپنی زبان کی وجہ سے پھنستا ہے جبکہ پرندہ اپنے پنجوں کی وجہ سے جال میں پھنستاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :