سیاست یا مذاق

ہفتہ 19 جون 2021

Asifa Amjad Javed

آصفہ امجد جاوید

 ہماری ترقی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں ان میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی لوگ ہیں یہاں ہر کسی کو کرسی چاہئے لیکن اس کرسی کو حاصل کرنے کے بعد کیا عوام کو یہ فائدہ دیں گے , عوام کی مشکلات آسان کریں گے اس بات کا علم انہیں خود بھی نہیں ہے
یہ خود تو عوام کے پیسے سے اپنی زندگی مکمل عیش میں گزار رہیں ہیں انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا غریب کی زندگی کیسی گزر رہی ہے کسی کے گھر میں چولہا جل رہا ہے یا نہیں ایسا احساس تو ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جن میں انسانیت موجود ہوان کے آپس کے جھگڑے ختم نہیں ہوتے یہ اس ملک کے لیے کیا کریں گے یہ کسی کو افلاطون, کسی کو ارسطو,کسی کو آئن سٹائن ایسے لقب دے رہے ہیں اگر یہ ارسطو,افلاطون اور آئن سٹائن بننے کا شوق رکھتے ہیں تو کام بھی ان جیسے کریں اب آتے ہیں اصل آئن سٹائن کی طرف جس کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے ماہرین کا کہنا ہے آئن سٹائن کا دماغ عام انسان سے بہت مختلف تھا اور ارسطو جس کی تعریف میں سکندرِ اعظم نے بھی لکھا ہے ارسطو زندہ رہے تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں مگر ہزاروں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے اور افلاطون مغربی ادبی روایت میں تاریخ فلسفہ کا سب سے شاندار اور صاحبِ بصیرت مصنفین سمجھا جاتا تھا میرا یہ سوال ہے کہ یہ سیاستدان کونسے آئن سٹائن کونسے ارسطو اور افلاطون بنے بیٹھے ہیں یہ حقیقت میں ایسے بن جائیں تو ہمارے ملک کے سارے مسائل حل ہو جائیں ہمارے ملک میں کرپشن اور ہر وہ کام جو نہیں ہونا چاہئے عروج پر ہے حال ہی میں ان سب نے قومی اسمبلی میں جو تماشا کھڑا کیا ہے اس سے دوسرے ملکوں میں ان کا اور ہمارا ملک کا کیا امیج بنا ہو گا دوسروں کو ایسے لوگ باتیں کرنے کا خوب موقع دیتے ہیں وہ یہی سوچتے ہوں گے اس ملک کے سیاستدانوں میں اتفاق نہیں ہے تو عوام کیسی ہو گی
جیسے حالات سیاستدانوں کے ہیں یہ لڑائی جھگڑے,تنقید کرنے,لفظوں کی گولہ باری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کسی کو لفظوں سے زخمی کیا گیا اور کسی کو حقیقت میں کیا زندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں ہم کس حق سے خود کو زندہ قوموں میں شمار کرتے ہیں اگر ایک نظر یہ اپنی قومی اسمبلی کے اجلاس پہ دہرائیں تو نہایت ہی بیوقوفانہ حرکت تھی یہ سب خوش کے ناخن لیں کرسی کا نہیں عوام کا سوچیں یہ عوام ہی انہیں یہ سوچ کر ووٹ سے منتخب کرتی ہے تاکہ یہ ہمیں اور ہمارے ملک کو فائدہ دے سکیں لیکن یہ فائدہ تو نہیں دیتے فائدہ اُٹھاتے ہیں یہ عوام کے ٹیکسوں سے ایسے ایسے محلات کھڑے کرتے ہیں جیسے جائیداد بنانا صرف ان کا ہی بنیادی حق ہے اور یہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی یہی پروسیجر اپناتے ہیں
غریب عوام کا پیسہ یہ ہضم کیسے کرتے ہیں صرف یہی جانتے ہیں اور جھوٹ ایسا صفائی سے بولتے ہیں سننے والے صرف انہیں کو سچا سمجھتے ہیں لیکن کب تک صرف یہ جملہ ذہن میں رکھیں۔

(جاری ہے)

"دنیا فانی ہے" یہ قومی اسمبلی میں ہنگامے کھڑے کریں ان پر قانونی کاروائی تو کیا کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں غریب اگر بھینس چوری کرے تو اس پر قانونی کاروائی کی جاتی ہے اس کو کٹہرے میں لایا جاتا اور جو جرم اس  نے نہ کیا ہو اس کا بھی غریب مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔سیاستدان عوام کا پیسہ کھائیں یا بیرونِ ملک جائیداد بنائیں کوئی اُن سے پوچھنے والا نہیں ان پر کاروائی کب ہو گی کیا  قانون ان کے لیے نہیں ان کو بھی ویسے ہی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ان کو بھی عدالتوں کے چکر لگوائے جائیں ان کے ساتھ ویسا ہی رویہ اپنایا جائے جیسا غریب کے ساتھ ہوتا ہے قانون  کی نظر میں سب برابر ہیں اور انصاف سب کے ساتھ ہونا چاہئے
 وزیراعظم اس ملک کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے تھے مدینہ کی ریاست میں کوئی بھی ادنیٰ ,اعلیٰ نہیں سمجھا جاتا تھا اسلام میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے حکمران اگر غلط کام کریں تو انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائےتین سال گزر چکیں ہیں جو تبدیلی کا نعرہ بہت جوش وخروش سے لگایا جاتا تھا وہ تبدیلی اب آجانی چاہئے یہ اس ملک کو  مدینہ کی ریاست تو نہیں بنا سکے تبدیلی ہی لے آئیں ایٹ لیسٹ اپنے کیے ہوئے کسی ایک وعدے پر پورا اُتریں اب یہ تبدیلی آجانی چاہئے ملک میں بھی اور وزراء کے رویوں میں بھی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :