گلوبل وارمنگ ،کلا ئمیٹ چینج۔۔۔خطرے کی گھنٹی !

جمعہ 31 جنوری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

گلوبل وارمنگ و کلائمیٹ چینج اس وقت خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے مگر پاکستان کا ایک عام آدمی اس مسئلہ کے حقیقی مضمرات سے سرے سے آگاہ ہی نہیں ہے ،حتی کہ ارباب اقتدار واختیار بھی اس مسئلہ کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہے جتنی دینی چاہئے ۔ حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں 27 ستمبر کی تقریر میں بھی اس اہم مسئلہ پر روشنی ڈالی تھی ۔

تقریر کی حد تک تو بہت اچھی بات ہے مگر عملی اقدامات و پالیسی سازی میں اس کی سنجیدگی کہیں نظر نہیں آرہی ۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ڈیووس میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان سمیت عالمی رہنماؤں نے اس خطرے سے نمٹنے کے لئے اپنے عزائم کا اظہار کیا ہے مگر ان ممالک کے اندر عملی اقدامات اس کے برعکس ہیں ۔ماہرین کے مطابق زمین کے اوسط درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کانام گلوبل وارمنگ ہے ۔

(جاری ہے)

گزشتہ 100 سال کے دوران دنیا کے درجہ حرارت میں 0.6 فیصد درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکاہے ۔آسٹریلوی تھنک ٹینک ” دی بریک تھرو نیشنل سینٹر فار کلائمیٹ ریسٹوریشن “ کی رپورٹ میں موجودہ تحقیقات کے نتائج کا استعمال کرتے ہوئے یہ مفروضہ پیش کرتے ہیں کہ2030 میں گیسوں کا اخراج عروج پر ہونے کی صورت میں 2050 تک عالمی درجہ صنعتی انقلاب کے دور کے درجہ حرارت سے تین سیلسس تک بڑھ سکتا ہے ۔

اسی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2100 تک دنیا کا درجہ حرارت پانچ سلیسس تک بڑھ سکتا ہے
موسمیاتی تبدیلی پر نظر ڈالیں تو دنیامیں تیزی سے گلیشئیر پگھل رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 5 ہزار گلیشئیرز پگھل چکے ہیں یہ لمحہ فکریہ بھی ہے اور سنجیدہ اقدامات کا منتظر بھی ۔ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ میں دنیا کو درپیش بڑے خطرات میں ماحولیات کو سرفہرست رکھا گیا ہے اور تمام حکومتوں کو ہنگامی اقدامات کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔

کیمیائی طور پر تیار کی گئیں اشیاء اور دیگر مختلف قسم کے کچرے کوجب ملایا جاتا ہے تو اس سے نکلنے والا دھواں ،زہریلی گیس اور ذرات فضا میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ہوائی جہاز سے چھوڑی جانے والی گیس ،گاڑیوں کا دھویں سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ سٹیون بیرٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 سے 10 برسوں کے اعدادو شمار سے ثابت ہوا ہے کہ فضائی آلودگی سے شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔

انسانی صحت کے لئے خطرناک کیمیائی اشیا ،دوائیں ،کیڑے مار ادویہ ،پلاسٹک پیکنگ اور آرائشی سامان وغیرہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن سے آلودگی پید اہورہی ہے ۔اسی طرح صنعتی اورشہری کثافت سے آلودہ پانی بھی انسانی زندگی کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔فضائی آلودگی کو صحت کے لئے دنیا کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے ماہرین نے انسانی صحت پر فضائی آلودگی کے مخصوص ذرات کے اثرات کا تعین کرنے کے لئے باہمی کوششوں کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق آب وہوا کی تبدیلی سے دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں 1.6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔انسانی صحت کے لئے کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری ہے لیکن اس ترقی یافتہ سائنٹفک دور میں انسان کونہ صاف ہوا میسر ہے اور نہ ہی کھلی فضا ۔انسان آلودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔اس آلودہ زندگی سے بے شمار بیماریاں و وبائیں پھیل رہی ہیں اور انسان ایک فعال زندگی گزارنے کی بجائے ذہنی کوفت میں مبتلا ہورہا ہے ۔

دی سٹیٹ آف گلوبل ائیر کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ملیریا ،ٹریفک حادثات ،غذائی کمی یا الکوحل کے بعد قبل از وقت اموات کی پانچویں سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈیٹا سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ روزانہ 15 سال سے کم عمر بچے 93 فیصد انتہائی مہلک ہوا میں سانس لیتے ہیں ۔اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو بہت سے تلخ حقائق ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے ۔

سموگ کی وجہ سے عوام کو جس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہرآنے والا دن ان خدشات میں اضافہ کررہا ہے ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے غیر معمولی بیان میں کہاگیاتھا کہ لاہور کے ہر شہری کی صحت کوسموگ یا گرد آلود زہریلی دھند سے خطرہ لاحق ہے ۔سال 2019 میں لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس 580 تک پہنچ گیا تھا ۔اے کیوآئی کے مطابق 130 کی شرح حساس طبیعت کے مالک افراد کے لئے تاحال غیر صحتمندانہ ہے جبکہ 580 کی شرح تو ہر فرد کے لئے انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہے ۔

سموگ دراصل دھوئیں اور دھند کے مرکب کو کہا جاتا ہے اس دھوئیں میں کاربن مونوآکسائیڈ ،نائیٹروجن آکسائیڈ میتھن جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں جوانسانی صحت کے لئے بہت مضر ہیں ۔مگر اس سلسلہ میں پنجاب حکومت کی کارکردگی و سنجیدگی پر عالمی ادارے بہت تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔ناقص اقدامات وناقص کارکردگی کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کے ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے فنڈز بھی ورلڈ بنک نے بند کئیے اور انتباہ کیا کہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں اور کارکردگی بہتر بنائی جائے مگر پنجاب حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ستم ضریفی ملاحظہ کریں صورتحال جوں کی توں ہے ۔

ماہرین کی وارننگ کے باوجود کے فروری 2020 کے بعد کوئی دن بھی سموگ فری نہیں ہوگا ۔فضائی آلودگی کے باعث کینسر ،پھیپڑوں کے علاوہ گلے کی پیچیدہ بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔تحقیقات کے مطابق کچرے کے ڈھیروں سے بے شمار زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے ۔بھارت پاکستان اور انڈونیشیا کے ممالک جو دنیا کا تقریبا پانچواں حصہ بنتا ہے جو اس سے متاثر ہورہا ہے ۔

آب وہوا کی آلودگی کو بہت سنجیدہ لینے کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔اس وقت طوفانی بارشوں ،سیلابی ریلوں ،سمندری موسمی نقصانات میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف قحط و خشک سالی کے ڈیرے ہیں یہ سب کچھ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہے ۔عمران خان نے کلین اینڈ گرین مہم اور بلین ٹری سونامی منصوبہ کا آغاز کیا وہ خوش آئند ہے مگر اب اس پر عملدرآمد بہت سست ہوگیا ہے ۔

اپوزیشن تو الزام لگارہی ہے کہ اب یہ منصوبہ صرف کاغذوں تک اور تقریروں تک محدود ہے ۔جہاں پر درخت لگانے کی مہم چلائی جارہی ہے وہیں جنگلات کاٹے جارہے ہیں ،زرخیز مٹی برباد ہورہی ہے ،صنعتی فضلات کے باعث پینے کا صاف پانی نہیں ہے ۔پاکستان میں جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ایک انتہائی اہم اور سنگین معاملہ ہے لیکن یہ جتنا اہم مسئلہ ہے اتنی سنجیدگی ارباب اختیار واقتدار میں نظر نہیں آتی ۔

گذشتہ چند سالوں میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی عروج پر رہی جس سے مجموعی طور پر ملک بھر میں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے۔پاکستان کا شمار اب دنیا کے ان ممالک میں دوسرے نمبر ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہورہے ہیں ۔پاکستان میں جنگلات پر تحقیق کرنے والے ادارے پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دوہزار کی دہائی میں کم ہوکر 33 لاکھ 20 ہزار ہکٹر تک رہ گیا ہے ۔

اس کی بڑی وجہ ٹمبر مافیا کے ہاتھوں جنگلات کی کٹائی ہے جس کو سیاسی لیڈروں و سرکاری افسروں کی بھی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔پروین شاکر نے اس المیہ پر کہاتھا
کل رات جوایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
مگر اربنائزیشن کی وجہ سے اب درختوں وقدرتی ماحول کی حفاظت کی بجائے انسان کی توجہ سیمنٹ کے مکانوں کی جانب زیادہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے گرینری کا خاتمہ ہورہا ہے جو تشویشناک ہے۔

عالمی مسلمہ معیارات کے مطابق کسی بھی ملک کے کم ازکم 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے مگر پاکستان میں جنگلات کی شرح 4 فیصد سے بھی کم ہوکر 2 فیصد سے کم ہوگئی ہے جو روز بروز مزید کم ہورہی ہے ۔بے دریغ درخت کاٹنے کی وجہ سے فضا میں موجود OZONE کی تہہ کمزور پڑتی جارہی ہے جس کی وجہ سے کینسر جیسے مہلک امراض کے ساتھ دیگر امراض میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے ۔

حکومت نے پلاسٹک کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لئے ملک کے کئی حصوں میں پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی عائد کی تھی اگرچہ اس پابندی کا اطلاق کہیں جزوی ،کہیں کلی طور پر ہے مگر کچھ ہونا بدرجہا بہتر ہے ۔بدقسمتی سے ہم نے اپنی نااہلیت ،بدانتظامی اور بدنیتی ،عدم توجہی کی وجہ سے تین بڑے قدرتی وسائل ہوا ،پانی ،اور خوراک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے ۔

وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دیں اور حل کے لئے لانگ ٹرم و شارٹ ٹرم پلان بنائیں ۔ اس منصوبہ سازی و عملدرآمد میں سول سوسائیٹی ، عوام الناس ،میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں کیونکہ عوام الناس کی شمولیت کے بغیر ان مسائل سے نمٹنا صرف حکومت کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ عوام میں بیداری شعور کی مہم چلائی جائے ۔ ملک میں جنگلات کے کٹاؤ کو روکنے کے لئے سخت قوانین اور عملدرآمد کا میکنزم بنایا جائے اور اس میں ملوث ٹمبرمافیاز و ان کے سرپرستوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔

حکومت شجرکاری مہم کو اپنی ترجیح بنائے بلخصوص ون بلین ٹری منصوبے کو عملی شکل دینے کے لئے زبانی جمع خرچ کی بجائے سنجیدہ عملی اقدامات کرے ۔ اسی طرح فضائی و آبی آلودگی کے خاتمے کے لئے اقدامات کو ترجیح بنانا بہت ضروری ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ ،ساتھ ستھرا معاشرہ دیں ۔ گلوبل وارمنگ سے نمٹنا بہت ضروری ہے کیونکہ گلوبل وارمنگ کا بم ایک ایسا خطرناک بم ہے جس نے کرہ ارض کو جوہری بم سے زیادہ خطرات میں گھیرا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :