اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول پارٹ تھری

ہفتہ 8 ستمبر 2018

Ayesha Kamran

عائشہ کامران

(گزشتہ سے پیوستہ)۔۔منہال! ذرا انصاف سے بتا بھلا کائینات کے چنے ہوئے افراد کی شہادت کی قیمت ان بدمعاشوں کا سر کیسے ہوسکتا ہے ؟ منہال! بتا میری ماں بہنوں پھوپھیوں کے سر سے ردا چھننے کا کیا قصاص ہو سکتا ہے؟ اچھا منہال! یہ بتا حسینؓ جیسے جگر گوشہِ بتولؓ کے ذبح ہونے کا کیا بدل ہو سکتا ہے؟ اب منہال شرمندہ ہوا دونوں ہاتھ امام کے قدموں میں رکھ کر معافی مانگی ، مولا !میں نے سنا ہے کہ آپکی ماں رباب جب سے کربلا سے واپس آئیں ہیں نہ ٹھنڈا پانی پیتی ہیں نہ ہی چھاوں میں بیٹھتی ہیں یہ سر ان کی خدمتِ اقدس میں پیش کریں ہو سکتا ہے کہ ان کے بیٹے علی اصغر کے قاتل کا سر دیکھ کر ان کے دل کو قرار آجائے، ہو سکتا ہے کہ زخمی دل پر مرہم کا کام دے ،ہوسکتا ہے کہ اب چھاوں میں بیٹھیں ڈھنڈا پانی بھی پی لیں ۔

(جاری ہے)

سید سجاد کرسی سے اُٹھے سیدھے ہاتھ میں سر والا تھیلا ساتھ لیا اور بیرون کمرے سے گھر کے اندر صحن میں داخل ہوئے کیا دیکھا ،ماں رباب دھوپ میں زمین پر بیٹھی ہیں کبھی کہتی ہیں حسینؓ ہر کسی کا لاشہ دفن ہو گیا تیرا لاشہ دھوپ میں بے گورو کفن پڑا رہا ، حسینؓ ! ہر کسی کو کفن ملا مگر ہائے تجھے کفن بھی نہ دیا گیا حسینؓ! میں دیکھتی رہی تیرے سر پر ضربیں چلتی رہیں ، کبھی علی اصغر کے درد بیان کرتیں اے علی اصغر تیری تو دودھ پنے کی عمر تھی ہائے تیرا دودھ "سہ شوبھا " تیر نے چھڑایا ، علی اصغر کیا تیری عمر کے بھی کوئی جنگوں میں" نحر" کئے جاتے ہیں ؟کبھی فریاد کرتیں سکینہ میری بچی منتیں کرتی رہی کہ بابا کو نہ مار مگر ہائے شمر کے طمانچے میری بیٹی کو خاموش کرتے رہے ، سکینہ تیری عمر کی بچیاں گُڑیوں سے کھیلتی ہیں مگر ہاے تجھے اونٹ کی سخت پشت پر منہ کے بل رسیوں سے باندھا گیا ،سکینہ تیری کوئی موت کی عمر تو نہ تھی ۔

۔ اب سید سجاد قریب کھڑے ماں کی فریاد سنتے رہے کچھ دیر کے بعد رباب کو سید سجاد کی موجود گی کا احسا س ہوا۔ اپنے مقام سے کھڑی ہوئیں بیٹا! میں نے سنا ہے مختار کا قاصد آیا ہے اب کس کا سر لایا ہے ؟ اماں علی اصغر کے قاتل کا سر ہے اماں اس کا سر ہے جس کے تیروں نے ہم اہلیبیت کے جگر کو چھلنی کیا، اماں اس کا سر ہے جس کے تیرکی شدت سے بابا حسینؓ بھاگتے گھوڑے سے منہ کے بل ذمین پر آئے اماں اس کا سر ہے جس نے علی اصغر کو وہ مدھانی کی شکل والا "سہ شوبا"تیر مارا جسے جنگوں میں انسانوں پر چلانے پر پابندی تھی یہ تیر گھوڑوں پر چلایا جاتا ۔

اماں یہ اس کا سر ہے جس کے تیر کی شدت سے علی اصغر کی ننھی گردن اپنے جسم سے قطع ہو گئی اور تیر بابا حسینؓ کے بازو میں پیوست ہوگیامیرا سلام ہو میر انیس پر کیا منظر کشی کر گیا

جب تیر کو معصوم کی گردن سے نکالا دنیا سے سفر کر گیا وہ ہنسلیوں والا
چلا کے عجب درد سے روے شاہِ والا نزدیک تھا ہو جائے کلیجہ تہہ و بالا
رباب سنتی رہیں دل کے زخم چھلتے رہے منظر یاد آتے رہے ۔

۔کبھی آسمان کی طرف دیکھتیں کبھی سید سجاد کے چہرے کی طرف اور کبھی حرملہ کے سر کو دیکھتیں اور کہتی جاتیں میرے اللہ مختار کو ہمارے جد کے ساتھ محشور فرما۔ میرے اللہ مختار ہمارے زخموں کا مرہم بنا اسکے زخموں کو مندمل فرما۔سید سجاد نے حرملہ کے سر کو ماں کے قدموں میں رکھا اور خود بھی قدموں میں بیٹھ گئے اماں میری ایک خواہش ہے اماں میں یہ چاہتا ہوں کہ اب آپ ٹھنڈا پانی پئیں اور چھاوں میں بھی بیٹھیں۔

اب گویا رباب کا جسم غم و اندوح سے کانپنے لگا ۔ اگر تو کہتا ہے کہ ہمارے مظلومین کا انتقام ہو چکا ؟ اگر تو کہتا ہے کہ تمام ظالم مارے گئے ؟ تو پھر پہلے تو سوگ اتار ۔نہیں اماں میری خواہش ہے آپ چھاوں میں بیٹھیں ۔ایک بار رباب کا منہ کربلا کی طرف پھر گیا ۔حسینؓ میں تیرے سر بریدہ لاشہ سے وعدہ کرکے کربلا سے چلی تھی کہ تیری لاش دھوپ میں ہے میں جب تک جیوں گی نہ چھاوں میں بیٹھوں گی نہ ٹھنڈا پانی پیوں گی۔

حسینؓ! ایک طرف تجھ سے وعدے کا احترام دوسری طرف تیرے جگر بریدہ بیٹے کی خواہش، میں کیا کروں؟ میرے اللہ میں کیا کروں؟میرا دل کہتا ہے آسمان پر کئی کئی بار درد و اندوح کی بجلیاں کڑکی ہوں گیں۔ فرشتے حیرانی کے عالم میں قربانیوں کے منظر دیکھ رہے ہوں گے اُمِ عیسی حیران ہو کر زکریاؑ سے پوچھتیں ہوں گی کہ مجھے تو معبدِ یہود میں ایک طمانچہ لگا آپ شدید غصے کے عالم میں فریاد کناں تھے مگر یہاں قربانیوں کی ایک داستان ہے کہ ختم ہونے پر نہی آرہی ۔

زہراؓ حوض کوثر پر کھڑی پوچھ رہی ہوں گی بابا! امت کے ظالم لوگوں نے میری آل اولاد کو ایسے مارا کہ کسی بنی کی آل پر ایسی تکلیفیں نہیں آئیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ عائشہ صدیقہؓ ا پنے بابا کو کہتی ہوں گی بابا یہ کیسے لوگ تھے میرے خاوند کی محنتوں اور محبتوں کا ،کیا یہ اجر بنتا ہے ؟ ام رباب نے ایک ہاتھ سید سجاد کے کندھے پر رکھا دوسرے ہاتھ سے دُعا مانگی میرے اللہ میری عزت رکھنا کہ بس اللہ کے حکم سے موت کے فرشتے نے اذنِ موت طلب کیا ؟ ام رباب کا دایاں ہاتھ امام سجاد کے کندھے سے ڈھلک گیا ، دُعا کے لئے اٹھا ہوا ہاتھ بے جان ہو چکا۔

سید سجاد کا جہاد اکبر ابھی جاری تھا اب ایک طرف حرملہ کا سر اور دوسری طرف اُسی زمین پر آپ کی گود میں اماں رباب کا بے جاں سر اور ایسے میں مستورات کو خبر مل چکی کہ ایک اور قیامت صغری بپا ہو چکی ۔تمام بیبیاں بھاگتی ہوئی سید سجاد کی طرف آئیں منہال نے گریہ و ماتم کی صدائیں سنیں۔ گھبرا کے کہنے لگا ۔میرے اللہ !یہ حرملہ کے سر -نے یہ کیسا ماتم بپا کیا ؟میر ے اللہ ۔۔۔۔۔۔جاری ہے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :