کیا صحافت آزاد ہے؟؟؟

منگل 25 مئی 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

صحافت ایک عظیم پیشہ ہے جو کہ بے حد تقدس کا حامل ہے ۔ ایک سچااور غیرجانبدار صحافی یقیناً لائقِ تحسین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کے زمینی حقائق آزادی صحافت پر اثرانداز ہوتےہیں۔ دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کو دباؤ کا سامنا رہتاہے، صحافی برادری سے تعلق رکھنے والے کئ نامور لوگ تلخیوں کی نظر ہوئےہیں ، تاہم سچ کو دبایا نہیں جاسکتا۔

دور جدید میں اظہار رائے کی آزادی اگرچہ مسلمہ جمہوری حق سمجھی جاتی ہے تاہم عملی طورپر ہمیشہ سے مسائل موجود رہے ہیں ۔ یہاں بات قابلِ ذکر ہےکہ آزادی اظہار کی آڑ میں کسی کی دل آزاری ہمیں زیب نہیں دیتی ۔   ملکی تاریخ گواہ ہےکہ ہمارے ہاں صحافت کو مسائل درپیش رہے  ہیں ، جن میں سیاسی دباؤ ، بدعنوانی ، آمرانہ قدغنیں وغیرہ شامل رہی ہیں ۔

(جاری ہے)

دراصل مجموعی سیاسی ، معاشی ، اخلاقی اور معاشرتی رویوں نے صحافت پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ پاکستان میں غریب اور مظلوم کی آواز بننا ، غیرجانبداری سے حالات حاضرہ کی عکاسی کرنا خاصا مشکل رہاہے۔ ہمارا میڈیا کبھی بھی سیاسی دباؤ سے آزاد نہیں ہوسکا ، ہر دور حکومت میں میڈیا کو ایک مخصوص طریقے سے کنٹرول کیاگیا۔ حتی کہ صحافیوں پر سچائی دکھانے کی پاداش میں مظالم بھی ہوئے۔

صورتحال اب بھی مختلف نہیں ہے، غیرسرکاری تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے 2021 میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ سال صحافیوں کے قتل، جسمانی تشدد، غیر قانونی حراست، دھمکیاں اور گرفتاریاں جاری رہیں، وہیں میڈیا کے مواد کو براہِ راست کنٹرول کرنے کی کوششوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ریگولیٹری اداروں کی جانب سے ہدایات، پورے پلیٹ فارمز پر پابندیوں، اور قانونی نتائج سخت کرنے والے قواعد تیار کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہوا ہے جہاں میڈیا سینسر ہو رہا ہے اور صحافیوں کو خود اپنے آپ کو سینسر کرنا پڑ رہا ہے۔

جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ رہا ہے کہ پاکستان میں " زرد صحافت" کو بھی پنپنے کا موقع دیاگیا ، اور اس شعبے میں بھی بدعنوانی کی حوصلہ افزائی کی گئ ۔  پاکستان کے تناظر میں جب ہم آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں تو یقیناً ہمارا مقصد آزادی اظہار کو بہتر مواقع دلانا ہوتاہے ۔ مگر افسوس کہ کچھ لوگ آزادی صحافت  کو ہی غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اس غلط تشریح کی وجہ سے پاکستان میں آزادی صحافت پر بات کرنا کافی مشکل ہوچکاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات حاضرہ کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی حوصلہ افزائی کی جائے، کیونکہ  عوام کا بھی یہ حق بنتاہے کہ وہ خبر تک رسائی حاصل کرسکیں ، یقیناً اس سے درست رائے عامہ قائم کرنے مدد ملے گی کیونکہ رائے عامہ قائم کرنے میں ذرائع ابلاغ کا کلیدی کردار ہوتاہے ، لہذٰا یہ کردار پوری ذمہ داری سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کارکن صحافیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں تاکہ وہ معاشی فکر سے آزاد ہوکر خوش اسلوبی سے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے سکیں۔ ہمیں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ آزادی صحافت کی آڑ میں  ملکی مفادات​، نظریاتی سرحدوں، ثقافتی اقدار، قومی زبان ،اور مذہبی اور اخلاقی معیارات کو نقصان نہیں پہنچناچاہئیے۔

پاکستان میں یہ معاملہ اتنا الجھا دیاگیا ہے کہ حقائق اور سچائی کو پیش کرنا مشکل جبکہ غیر حقیقی اور جانبدارانہ​ مواد کی تشہیر کو  سہل بنادیا گیا ہے ۔  آزادی کےنام پر صحافت کے تقدس کو نظرانداز کرنا کسی طورپر بھی مناسب نہیں ہے۔ لہذٰا ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاناچاہئے تاکہ منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے ۔آزادی صحافت چونکہ ایک جمہوری حق ہے ، لہذٰا اس کا تحفظ یقینی بنانا اہم حکومتی ذمہ داری ہے تاکہ صحافی برادری اپنے جملہ فرائض احسن سے ادا کرسکے۔ میڈیا ہاؤسز کو چاہیے کہ وہ کارکن صحافیوں کو ترقی اور ناآموز افراد کو تربیت کے بھی بہتر مواقع فراہم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ شعبه صحافت ترقی پاسکے  ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :