
"مقام عبرت ہے،تماشا نہیں کوئی"!!!!
ہفتہ 7 اگست 2021

عائشہ نور
(جاری ہے)
ذاکر جعفر کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ، بڑے بیٹے کا نام " ظاہر جعفر " ہے ۔ظاہر کی والدہ بیگم عصمت کا تعلق " آدم جی خاندان "سےہے۔ "ظاہر جعفر " امریکہ میں پیدا ہوا اور لندن میں زیر تعلیم رہا ۔
الغرض " نور مقدم " اور "ظاہر جعفر " دونوں کا تعلق ایلیٹ کلاس سے تھا۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ ہماری ایلیٹ کلاس مادر پدر آزادانہ خیالات کی مالک اور مغربی طرزِ زندگی کی دلدادہ ہے ۔ ایسے لوگوں کا روایتی آداب معاشرت اور مذہبی خیالات سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔اسی طبقے سے تعلق رکھنے والی لبرل آنٹیاں مارچ کے مہینے میں " میرا جسم ، میری مرضی " کے نعرے بلند کرتی سڑکوں پر نمودار ہوتی ہیں ، اور پدرشاہی نظام کو سارا دن برابھلا کہتی نظر آتی ہیں ۔ مرحومہ نور مقدم بھی ان لبرلز کی حمایتی واقع ہوئی تھیں ۔ اپنے جدید خیالات کے اعتبار سے "نور مقدم "میرا جسم ، میری مرضی کی قائل تھیں ۔ اسی سبب سے وہ پچھلے " عورت مارچ " میں بھی شرکت کر چکی تھی ۔ چنانچہ اپنے نظریات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نور مقدم نے (ایک نامحرم ) ظاہر جعفر کے ساتھ domestic/living relation ship میں رہنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ دونوں تین برس تک بنا شادی کیے آزادانہ طورپر ساتھ رہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ساتھ رہنے کا فیصلہ کرہی لیا تھا تو شادی کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھا ؟؟؟ ایسے تعلق پر دونوں کے خاندان والوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نور مقدم کو ظاہرجعفر نےاپنےگھر میں قتل کیا اور جعفر ہاؤس کے ملازمین یہ دردناک مناظر بڑی بےحسی سے دیکھتے رہے مگر کسی نے لڑکی بچانے کی کوشش نہیں کی ۔ جب کمرے کے اندر سے چیخوں کی آواز آئی تو گھریلو ملازمین نے ظاہر کے باپ ذاکرجعفر کو کال کرہی دی تو اس نے بھی زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی ، فقط تھراپی سنٹر کال کرنے پر اکتفا کیا ۔ جب تھیراپی سنٹر والے جائے وقوعہ پر پہنچے تو انہیں نور مقدم کی خون میں لت پت لاش ملی ، اور سر تن سے جدا پایاگیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دولت آجانے پر انسان مذہبی اور اخلاقی حدود توڑ دے ، حلال و حرام کی تمیز بھول جائے؟؟؟ یہ یقیناً غلط ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ زندگی میں دولت سب کچھ نہیں ہے ۔ انسان کو جہاں انسان کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے ، وہاں دولت کام نہیں آتی ۔ اسی لیے انسان رشتے ناطے بناتا اور نبھاتا ہے ۔ مگر رشتے ناطے بنانے اور نبھانے کےلیے بھی کچھ دینی اور اخلاقی حدود مقرر ہیں ۔ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں ، مگر دولت آجانے پر اسلامی اقدار کو بوجھ سمجھنے لگیں گے تو یہ ہی انجام ہوگا ۔ ہمارے معاشرے کو پدرشاہی ہونے کا طعنہ دینے والےلبرل کیا نہیں جانتے کہ اکیلی عورت کےلیے زندگی جینا اور فیصلے کرنا کتنا بڑا بوجھ ہوتاہے ۔اگر باپ ، بھائی ، شوہر ، بیٹا یہ بوجھ بانٹ لیتے ہیں ، تو کیا غلط کرتے ہیں ؟؟؟ آزادی کا شور مچانے والی لبرل خواتین بتائیں کہ وہ رشتوں ناطوں سے آزاد ہوکر کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں ؟ جب آزادی ملتی ہے نا ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے ۔ آزادی کے صحیح استعمال کےلیے بھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔آج ہمارے معاشرے میں جتنے بھی بگاڑ پیدا ہوچکے ہیں ، اس کا ایک سب سے بڑا سبب "میرا جسم ، مرضی " کے پروردہ لوگ ہیں ، جو معاشرے کو بے راہروی اور غلط کاری کے راستے پر چلنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ آج ہماری کتنی ہی جامعات میں اخلاقیات کے جنازے نکل رہے ہیں مگر کوئی برابھلا نہیں کہتا ، سب اچھا ہے کا تاثر ایک جھوٹ ہے ۔ اور یہ والدین کیسے ہیں جو سب کچھ دیکھ بھال کربھی بس یہ ہی کہتے ہیں کہ میرے بچے solicite کررہے ہیں ، اور نظرانداز کردیتے ہیں ۔ نفسیاتی پسماندگی کا شکار لوگوں کو کس نے حق دیا کہ وہ دوسروں کی عزتوں کےساتھ solicite کریں ۔ یہ مادرپدر آزاد لوگ واقعی نہیں جانتے کہ عورت کی عزت و آبرو کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ مجھے بھی نور مقدم کے وحشیانہ قتل کا رنج ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ ایک قیمتی زندگی رائیگاں چلی گئ ۔ اور یقیناً ظاہر جعفر جیسے امیر زادوں کو لگام ڈالنےکےلیے بھی ضروری ہے کہ قاتل کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ مگر ہمیں قتل کی وجوہات کا بھی تدارک کرناپڑے گا۔ غلط راستے پر چلنے کے باعث نور مقدم بھی اپنے قتل کی 40%ذمہ دار خود ہے۔ دولت کے نشےمیں ڈوبی ہوئی ایلیٹ کلاس ایک نفسیاتی پسماندگی کا شکار نظرآتی ہے۔ سب کچھ میسر ہونے کے باوجود بھی غلط روش پر چلنے والے بگڑے امیر زادے ذہنی سکون نہیں کبھی پاسکتے، اور برائیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں ۔ ظاہرجعفر کو نشئی اور نفسیاتی مریض ثابت کرنے کے خواہشمند لبرلز وہ ہی لوگ ہیں جوخواتین پر گھریلو تشدد پر صبح وشام سراپا احتجاج رہتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ریپسٹ کی سزائے موت کا مطالبہ سامنے آنے پر انسانی حقوق کا واویلا کرتے ہیں ۔ کس قدر کھوکھلی ہمدردی جتاتے ہیں یہ بنت آدم کے ساتھ ، جوکہ صرف ایک فریب ہے۔ یہ لبرلز اپنی وفاداریاں بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ، کیونکہ حقوق نسواں کا لبادہ اوڑھ کر یہ صرف بے راہروی ، فحاشی اور عریانی کے سوداگر ہیں ۔ نور مقدم قتل کے مقدمے میں گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر واقعی بہت سے لبرل چہرے بےنقاب ہوگئے ہیں ۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عائشہ نور کے کالمز
-
میرا حجاب ، اللہ کی مرضی!!!
منگل 15 فروری 2022
-
غلام گردش!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
صدائے کشمیر
اتوار 23 جنوری 2022
-
میرا سرمایہ ، میری اردو!!!
بدھ 12 جنوری 2022
-
اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی
بدھ 29 دسمبر 2021
-
ثقافتی یلغار
پیر 20 دسمبر 2021
-
"سری لنکا ہم شرمندہ ہیں"
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
چالاکیاں !!!
ہفتہ 27 نومبر 2021
عائشہ نور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.