"عہد نو کا طارق"

جمعہ 18 جون 2021

Azhar Idrees

اظہر ادریس

پاکستان زندہ باد کا نعرہ ہر پاکستانی موقعے  کے اعتبار سے لگاتا رہتا ہے ،لیکن یہ نعرہ جب طارق عزیز لگاتا تھا تو ساتھ دینے والوں کی روح تک جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو جاتی تھی ۔ہاں ایسا ہی تھا وہ دیوانہ، وطن کی محبت میں دیوانگی کی حد تک ڈوبا ہوا ۔پاکستان کا یہ عظیم دانشور 1936 میں جالندھر میں پیدا ہوا پاکستان بننے کے بعد انکے والدین نے ہجرت کر کے ابتدائی طور پر ساہیوال میں سکونت اختیار کی اور بعد ازاں لاہور منتقل ہو گئے۔

دیکھنے والوں کو اس بے چین روح کا اندازہ ابتدا میں ہی ہوگیا تھا جب اس نے طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور بعدازاں 1970 میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی، مزدور تحریکوں کی حمایت اور بائیں بازو کی سیاست کا داعی ہونےکی وجہ سے پیپلزپارٹی ہی انکے لئے عملی سیاست میں شرکت کی ترجیح بنتی تھی۔

(جاری ہے)

انھوں نے پیپلزپارٹی کے منشور سے متاثر ہوکر اس میں شمولیت اختیار کی لیکن جب انکی توقعات پوری نہیں ہوئیں تو انہوں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔

بعد ازاں 1995 میں انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی اور 1997 میں قومی اسمبلی کے ممبر بنے، انہوں نے اس وقت کے نوآموز سیاستدان عمران خان کو پانچ ہزار کے مقابلے میں پچاس ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ اسکے بعد ن لیگ کے تحت سپریم کورٹ پر حملے میں بھی سرکردہ کردار نبھایا، میری ذاتی رائے میں سپریم کورٹ والا معاملہ اور جنرل ضیاء الحق سے قربت انکی زندگی کے پچھتاوں میں سرفہرست رہئے ہونگے۔

کیوں کہ سیاست کا میدان انکے لئے گناہ بے لذت ہی رہا ۔انکی سیاست کا سفر پرویزمشرف کے دور میں ق لیگ میں شرکت کے بعد اختتام کو پہنچا، انہوں نے اگر سیاسی فائدہ حاصل کیا تو وہ صرف اپنے ٹی وی شو کو جاری رکھنے کی حد تک رہا جس کی حیثیت انکے لئے اپنے بچے کی سی تھی۔
طارق عزیز سیاست میں آنے سے پہلے ہی فلم ،ریڈیو اور ٹی وی کی بدولت شہرت حاصل کرچکے تھے،انکی پہلی فلم انسانیت تھی۔

پاکستان میں جب1964 میں ٹیلیویژن کا آغاز ہوا تو پی ٹی وی کے پہلے انائونسر ہونے کا اعزاز انکو حاصل ہوا اسوقت پروگرام براہ راست نشر ہوتے تھے، صورتحال کے مطابق ناظرین کو مصروف رکھنے میں انکو کمال حاصل تھا۔ انکی شہرت کو دوام انکے معلومات عامہ کے پرگروام نیلام گھر سے حاصل ہوا ۔نیلام گھر سے پہلے ذہنی آزمائش کے پروگراموں میں  پی ٹی وی پر شیشے کا گھر جوکہ قریش پور پیش کرتے تھے اور کسوٹی مشترکہ طور پر افتخار عارف، عبیداللہ بیگ کے ساتھ قریش پور کی میزبانی میں پیش کیا جاتا تھا، گوکہ یہ پروگرام معلومات عامہ کے حوالے سے بڑے جامع پروگرام ہوتے تھے لیکن ان میں کوئی تفریحی پہلو نہیں  تھا ۔

1975 میں پی ٹی وی پروڈیوسر عارف رانا کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کوئی ایسا شو ہو جو معلومات کے ساتھ ساتھ عوام کو تفریح بھی فراہم کرے اور یہی مرکزی خیال  پاکستان کے پہلے گیم شو کی بنیاد بنا، اس پروگرام میں ایک انرجیٹک اور پرجوش میزبان کی ضرورت تھی جو کہ ڈھائی سے تین گھنٹے(اصل پرگروام ایڈیٹنگ کے بعد 50 منٹ کا رہ جاتا تھا) تک لوگوں کو سوال جواب کے ساتھ ساتھ مختلف ایکٹیویٹیز کےذریعے تفریح بھی فراہم کرسکے اور خاص طورپرگھر بیٹھے ناظرین پر بھرپور تاثر چھوڑ سکے، انکی نگاہ انتخاب طارق عزیز پر جاکر ٹھہری۔

نیلام گھر نے طارق عزیز کی میزبانی میں عوامی مقبولیت  کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اورواحد پروگرام تھا جوکہ  تقریبا" چار دھایوں تک جاری رھا ۔ اسکی اردو اور مقامی زبانوں میں پی ٹی وی پر ہی نقل کی گئی جس میں خواتین کےلئے مینا بازار کے نام سے خوش بخت شجاعت کا شو اور ایک سندھی پروگرام پرکھ قابل ذکر ہیں(راقم نے بھی اسکول میں ہفتہ طلبہ میں نیلام گھر  پیش کیا تھا) نیلام گھر کے نام سے شروع ہونے والا پروگرام طارق عزیز شو سے ہوتا ہوا بزم طارق عزیز میں تبدیل ہوا۔

اسکے پروڈیوسر بھی بدلے جن میں عارف رانا کے بعد قابل ذکر نام تاجدار عادل کا ہے، لیکن کسی نے بھولے سے بھی میزبان تبدیل کرنے کا نہیں سوچا۔ نیلام گھر کراچی سے شروع ہوا یہاں یہ تاج محل ہوٹل( آج کے ریجنٹ پلازہ) اور کچھ عرصے رنگون والا ہال میں ریکارڈ ہوتا رہا، پھر اسکے بعد لاہور چلاگیا بلکہ طارق عزیز اسکی مقبولیت کی وجہ سے اسے پاکستان سے باہر بھی کچھ ممالک میں لیکر گئے ۔

نیلام گھرمیں وقت کے ساتھ ساتھ طارق عزیز تبدیلیاں بھی کرتے رہئے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہےتو نیلام گھر بھی اپنے آخری دور میں پرائیویٹ چینلز کے آنے کے بعد ناظرین کی توجہ کھوتا گیا ، ہوسکتا ہے کہ اسکا ادراک طارق عزیز کو بھی ہو لیکن یہ شو انکے لئے نشہ بن گیا تھا اور انکے لئے اسکے بنا جینا دشوار  تھا اسلئے وہ جب تک اس کو جاری رکھ سکے انہوں نے سر توڑ کوشش کر کے اسے جاری رکھا۔

نیلام گھر کچھ عرصے درمیان میں  عارضی طور پر بند ہوا تو طارق عزیز نے ایک پروگرام جیوے پاکستان کے نام سے شروع کیا جو کہ غالبا" ایک انگریزی پروگرام " یو آسکڈ فور اٹ" کا چربہ تھا۔
طارق عزیز ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ بیک وقت اداکار، صداکار ،کالم نگار، شاعر، میزبان، دانشور اور سیاست دان تھے ۔انکے کالموں کا مجموعہ "ہزار داستان " جبکہ پنجابی شاعری کا مجموعہ " ہمزاد  دا دکھ "بھی شائع ہوا ۔

اردو انکی مادری زبان نہیں تھی لیکن انہیں اردو پر کمال کا عبور حاصل تھا۔بقول مستنصر حسین تارڑ "الفاظ انکے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے" انہیں ہزاروں کی تعداد میں اردو اور پنجابی شعر شاعر کے نام کے ساتھ زبانی یاد تھے جنہیں وہ موقعے کی مناسبت سے فورا" پڑھ دیتے تھے ۔80 کی دھائ میں انہوں نے ڈاکٹر حاجرہ کے ساتھ شادی کی، جوکہ کراچی قیام کے دوران بہادر آباد میں پریکٹس کر تی تھیں، انکی کوئی اولاد نہیں تھی شاید ایک بیٹا تھا جوکہ اوائل عمری میں وفات پا گیا ۔

1992 میں انہیں انکی خدمات کو دیکھتے ہوئے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا ۔انکی بھاری بھرکم آواز کی نقل اکثر اتاری جاتی تھی، خاص طور سے معین اختر مرحوم بہت زبردست نقل اتارتے تھے، ایک ایسےہی پروگرام میں طارق عزیز خود موجود تھے انھوں نے فرط جذبات سے مغلوب ہوکر معین اختر کی پیشانی چوم لی۔ عراق کے وزیر خارجہ اور صدام حسین کے دست راست انکے ہم نام تھے، ریڈیو پر خبریں سننے والوں کے حوالے سے بعض اوقات دلچسپ صورتحال پیدا ہوجاتی تھی ۔

1988 میں ایم کیو ایم (اس وقت کی مہاجر قومی موومنٹ ) نے پہلی دفعہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے تمام امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑے کئیے، جب رات میں نتائج آنے شروع ہوئے تو ایم کیو ایم کے امیدواروں نے تمام ریکارڈ توڑ دئے۔پی ٹی وی  پینلسٹ میں طارق عزیز بھی شامل تھے، انھوں نے کچھ اس طرح سے محتاط انداز میں تبصرہ کیا" ان آزاد امیدواروں کے پیچھے ایک مخصوص جماعت، ایک مخصوص گروہ ہے" انکا یہ جواب باقی پینل کےلئے ہوتا جو کہ آزاد امیدواروں کی غیر معمولی کامیابی پر مصنوعی حیرانگی کا اظہار کررہے تھے ۔


بقول جون ایلیا
آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں
انکے اس انداز پر  ایم کیو ایم کے حامیوں سمیت پارٹی قیادت نے بھی سخت اعتراض کیا اور الطاف حسین نے نیلام گھر کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی۔ طارق عزیز کی طرف سے وضاحتی بیان بھی آگیا جبکہ الیکشن کے نتائج اور کچھ عرصے پہلے جنگ اخبار کے بائکاٹ کو دیکھتے ہوئے وہ سمجھ گئے کہ 90 پر حاضری ناگزیر ہوگئی ہے، لہذا وہ 90 پہنچے الطاف حسین سے ملاقات کی اور انھیں اپنا شعری مجموعہ " ہمزاد دا دکھ"  پیش کیا، انکی 90 پر
جس طرح پذیرائی ہوئ اس سے انکو خوشگوار حیرت ہوئی ۔

  
طارق عزیز گو کہ پرانے دور کے انسان تھے لیکن انکے مداحوں میں ہمارے بزرگوں سے لیکر آج کے نوجوان تک شامل تھے ۔ٹویٹر پر انکے مداحوں کی تعداد مجھ سمیت دو لاکھ سے زیادہ ہے، انکا آخری ٹویٹ کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال کےحوالے سے تھا جس میں انھوں نے زندگی کے جمود کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ عین اس آخری ٹویٹ سے پہلے ایک خاتون نے انکی عمر کے بارے میں ٹوئٹ کیا،  جسکا جواب انہوں نے 85 سال لکھکر دیا اور  اس س پہلے ٹوئٹ میں انہوں نے صرف کلمہ شہادت لکھا ۔

لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے کیونکہ طارق ایک تاریخ کا نام ہے ایک عہد تھا جو تمام ہوا۔وطن کی محبت میں سر سے پیر تک سرشار  یہ درویش صفت انسان جاتے جاتے اپنا سب کچھ پاکستان کو دے گیا۔
رب جلیل کے بابرکت نام سے ابتدا کرنے والے کی طرف سے دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا آخری سلام۔۔۔۔۔پاکستان زندہ باد ۔
حق مغفرت کرے  ،عجب آزاد مرد تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :