دلیپ کمار 98 ناٹ آئوٹ

پیر 26 جولائی 2021

Azhar Idrees

اظہر ادریس

احمدفراز نے اپنی شہرا آفاق نظم"سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں"  دلیپ کمار کی  پاکستان آمد پر جب ایک محفل میں انکی نذر کی اور جس طرح وہ ہمہ تن گوش ہوئے، اس نظم کا ایک ایک لفظ حاضرین کے دل میں اترتا چلا گیا، سب کو  ایسا محسوس ہوا کہ اس نظم کی تشریح ایک لفظ میں "دلیپ کمار " ہے۔ ایسا ہی تھا یہ خوش گلو ، خوش سخن کروڑوں دلوں پر حکمرانی کرنے والا محمد یوسف خان المعروف دلیپ کمار۔

 
دلیپ کمار 11دسمبر 1922 کو کھیل اور فن اداکاری کے حوالے سے انتہائی زرخیز شہر پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پیدا ہونے، انکے والد پشاور میں پھلوں کی آڑھت کا کام کرتے تھے۔ 1935میی انکے والد نے پشاور سے ممبئی ہجرت کر کے سکونت اختیار کی۔ ابتدائی طور پر انہوں نے اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹایا،لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ جب جب جو جو ہونا ہے، تب تب سو ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

  وہ تاریخی لمحہ آئی ہی گیا جب قدرت نے نوجوان یوسف خان کی قسمت کا فیصلہ کر تے ہوئے ان کے سر پر فن اداکاری کے مغل اعظم کا تاج سجا دیا ، اس طرح 1944 میں اس عظیم فنکار کا فلم جوار بھاٹا کے ذریعے ڈیبیو ہوا۔ کئی اور بڑے فنکاروں کی طرح انکی پہلی فلم کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پائ، لیکن 1949 میں فلم اندااز نے انہیں ایک کہنہ مشق اداکار کے طور پر  منوادیا۔

انداز کے بعد آن، داغ، دیو داس، مغل اعظم،  اور پھر دلیپ صاحب نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، یہاں انکو شہنشاہ جذبات کا خطاب دیا گیا لیکن گوپی، سگینا، رام اور شیام کے بعد ثابت ہوگیا کہ کیا المیہ کیا طربیہ دلیپ صاحب ہر طرح کے کردار کو اسکی روح کے ساتھ نبھانا جانتے ہیں ۔
دلیپ کمار کو جذباتی اور رومانوی کردار ادا کرنے میں کمال حاصل تھا، جہاں لڑکیاں انکی ایک جھلک کی دیوانی تھیں وہاں ہر نوجوان اپنے آپ کو دلیپ کمار سمجھتا تھا، خاص طور سے انکا ہئیر اسٹائل اس دور میں بہت کاپی ہوا،کبھی سر کو یا کان کی لو کو مخصوص انداز سے کھجانا یا ڈائلاگ بولتے ہوئے ہاتھوں کا استعمال،ایک ایک ادا اس عظیم فنکار کی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

ہمارے ندیم بیگ صاحب جو کہ بہت بڑے فنکار ہیں، انکی پہلی فلم جب چکوری ریلیز ہوئ تو شور مچ گیا کہ پاکستان میں دلیپ کمار آگیا ہے، شاید انکے دھیمے لہجے کی وجہ سے فلم بینوں کو یہ تاثر ملا۔ ایک شو میں انور مقصود نے جب دلیپ کمار کے سامنے ندیم سے پوچھا کہ اگر یوسف خان فلموں میں نہ آتے تو آپ کہاں ہوتے، انھوں نے برملا اعتراف کیاکہ "یوسف خان فن کا سمندر ہیں اور میں اس میں سے فقط چند قطرے لے پایا ہوں"۔


دلیپ کمار نےکامنی کوشل، نرگس، مدھو بالا،  وجینتی مالاسمیت اپنے دور کی تمام چوٹی کی ہیروئینوں کے ساتھ کام کیا لیکن کومل سی نوتن جی کے دل میں بطور ہیروئین انکے ساتھ کام کرنے کی حسرت ہی رہ گئی اور انکی یہ خواہش طویل عرصے بعد انکے دوسرے اسپیل میں فلم کرما کے ذریعے پوری ہوئی۔ دلیپ کمار کی ادائوں کی خاص اسیر کامنی کوشل اور مدھو بالا ہوئیں، مدھو بالا سے انکا رومانس خاصا مشہور ہوالیکن مدھو بالا کے والد کی ضد اور دلیپ کمار کی انا کی وجہ سے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا۔

وہ جو کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں تو قرعہ فال اپنے وقت کی خوبصورت ترین خاتون "پری چہرہ نسیم" کی نو عمر بیٹی سائرہ بانو کے نام نکلا اور 1966 میں دلیپ صاحب انکے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ۔ سائرہ بانو اس وقت ان سے عمر میں آدھی تھیں لیکن فلمی دنیا کی یہ جوڑی آخری وقت تک بے مثال جوڑی رہئ، آفرین ہے سائرہ بانو کو کہ انھوں نے ایک گھریلو عورت کی طرح اپنے "صاحب" کا کیا خوب ساتھ نبھایا۔

دلیپ صاحب اپنی عمر کے آخری دور میں صحت کے مسائل سے بہت زیادہ دوچار رہئے خاص طور پر شدید قسم کےڈیمینشیا اور الزائمر کی کیفیت نے انکے پرستاروں کو زہنی ازیت سے دوچار کیا جبکہ سائرہ بانو اس حال میں بھی انکی سالگرہ کا بھرپور اہتمام کرتی تھیں۔ اب کوئی  کیا بتائے کہ اس بیماری میں مریض کی نگہداشت بالکل بچے کی طرح کرنی پڑتی ہے، سائرہ بانو انکی نگہداشت کے ساتھ  بچوں کی طرح لاڈ بھی کررہئ تھیں اور انکو قطعئ طور یہ گوارا نہ تھا کہ وہ اپنے "صاحب" کی سالگرہ کے تسلسل کو توڑیں۔

سائرہ بانو انکو "صاحب" کہا کرتی تھیں۔
دلیپ کمار سے ہماری نسل کا التفات انکی دوسری اننگز خاص طور پر انکی فلم شکتی سے ہوا اور اسکے بعد اشتیاق ایسا بڑھا کہ ہم نے مغل اعظم،  رام اور شیام،  داغ ،سگینا، انداز سمیت کئ پرانی فلمیں دیکھ ڈالیں۔ فلم مغل اعظم جب دور درشن سے دکھائی گئی تو سنا ہے کہ لاہور میں بانسوں کی قلت ہوگئی، زندہ دلان لاہور نے صاف نشریات دیکھنے کے لئے اپنے اینٹینا بلند سے بلند کر دیئے۔

دلیپ صاحب نے 1976 کے بعد تقریبا" پانچ سال کا وقفہ لیا، غالبا" انکواپنے شایان شان کردار کا انتظار تھا اور بالآخر فلم "کرانتی" کے "سردار سانگا" کی شکل میں انکے پرستاروں کا انتظار ختم ہوا۔ کرانتی کے بعد شکتتی، مشعل، دنیا،  مزدور، ودھاتا، کرما، سوداگر، قانون اپنا اپنا، عزت دار ، قلعہ انکے اس دور کی فلمیں تھیں۔قلعہ انکی آخری فلم تھی جس میں انہوں نے منفی کردار کے ساتھ ڈبل رول کیا۔

فلم شکتی اپنے دور کی ایک شاہکار فلم تھی مضبوط اسکرپٹ، جاندار ڈائلاگ کے ساتھ اپنے وقت کے دو سپر اسٹار آمنے سامنے تھے۔ شکتی کے بعد اکثر لوگ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ امیتابھ بچن دلیپ کمار کے سامنے دب گیا، لیکن  ایسا قطئ نہیں تھا، ڈی سی پی اشونی کمار کے کردار کے سامنے یہ امیتابھ ہی تھا جو ٹھہر گیا اور خوب جم کر اداکاری کی خاص طور سے فلم کے آخری سین میں۔

یہ فلم دراصل دو نسلوں کے پرستاروں کے درمیان مقابلہ تھا ،80 کی دھائ میں امیتابھ بچن کا طوطی بول رہا تھا جب ہماری جنریشن کے لوگوں نے دلیپ کمار کو امیتابھ بچن کے مقابل دیکھا تو ذہن یہ ماننے سے قاصر ہو گیا کہ امیتابھ کے مقابلے میں بھی کوئی اداکاری کرسکتا ہے اور ساتھ ہی ہمارے بزرگوں نے ہماری طرف ایسے دیکھا کہ جیسے کہ رہئے ہوں کہ بھیا ہم ایسے ہی تو دلیپ کمار کے دیوانے نہیں ہیں۔

امیتابھ نے ایک جگہ ذکر کیا کہ وہ ڈائریکٹر کے ساتھ شکتی کاوہ سین ڈسکس کررہئے تھے جس میں وجیہ اپنی ماں کی موت پر پولیس کی حراست میں اپنے باپ سے ملنے آتا ہے،لیکن ہم مطمئن نہیں ہو پارہئے تھے،   پھر طے یہ پایا کہ دلیپ صاحب کے پاس چلتے ہیں، ہم لوگ رات کے ایک بجے انکے پاس پہنچے، تبادلہ خیال کرتے کرتے صبح ہوگئ اور طے یہ پایا کہ اس سین میں کوئی ڈائلاگ نہیں ہوگا، دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس سین میں بغیر کچھ کہئے، باپ اور بیٹے کی بھیگی پلکیں سب کچھ کہ گئیں۔

شکتی کے لئیے امیتابھ بچن اور دلیپ کمار دونوں بہترین اداکار کے ایوارڈ کے لئیے نامزد ہوئے اور ظاہر ہے کہ ایوارڈ دلیپ صاحب کے حصے میں آیا۔
دلیپ کمار نے فلم فئیر،  دادا صاحب پھالکے، پدم بھوشن سمیت ہندوستان کے تمام ایوارڈ حاصل کئے بلکہ یہ واحد اداکار ہیں جنہوں نے فلم فئیر ایوارڈ مُسلسل تین مرتبہ حاصل کرکے ہیٹ ٹرک کی۔ انکے فن کا اعتراف حکومت پاکستان نے بھی کیا اور 1998 میں انہیں نشان پاکستان سے  نوازا گیا۔

یہ واحد برصغیر کے اداکار ہیں جن کی سوانح عمری پر پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ فلم فئیر نے بھارتی سلور اسکرین کے سو سال منائے تو اپنے میگزین کے سرورق پر دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان کی تصویر شائع کی، گویا اس میں پچاس سال صرف اکیلے دلیپ کمار کے تھے۔امیتابھ بچن نے انکی موت پر بڑی خوبصورت بات کی کہ" ہندوستان کی فلم انڈسٹری کو دو ادوار میں تقسیم کیا جائے گا، دلیپ کمار سے پہلے اور دلیپ کمار کے بعد" ۔

جب امیتابھ بچن کو "آرٹسٹ آف دی ملینیم" کا ایوارڈ دیا گیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ "اس ایوارڈ کے اصل حقدار دلیپ صاحب ہیں، اس ایوارڈ کے لئیے سروے کیونکہ آن لائن ہوا تھا اور شرکاء میں شامل بہت سارے نوجوان انکے کام سے  واقف نہیں"۔ کوئی ایسا بھارتی یا پاکستانی اداکار نہیں ہے کہ جس نے دلیپ کمار کی عظمت کا اعتراف انکی زندگی میں نہ کیا ہو، شاہ رخ خان کا فلم فئیر ایوارڈ میں سائرہ بانو اور دلیپ کمار کے قدموں میں ریڈ کارپٹ بچھانا کسی کو نہ بھولے گا۔

 
دلیپ کمار کو پاکستان خصوصا" پشاور سے خاص الفت رہئ ہے۔ پاکستان کے نام سے انکی آنکھوں میں ایک چمک آجاتی، پاکستان سے آنے والا انکا خاص مہمان ہوتا تھا، انکی ہدایت تھی کہ اگر میں گھر پر موجود نہ بھی ہوں تو پاکستان سے آنے والے مہمان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے ۔پاکستان کی کرکٹ اور ہاکی ٹیم جب بھی بھارت کا دورہ کرتی تھی تو انکے گھر پر دعوت کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔

پاکستان کے ہاکی کے عروج پر اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ " ہاکی میں تو آپ نے جادوگر پیدا کئے ہیں" اسی طرح وہ نصرت فتح علی، مہدی حسن،  غلام علی اور اپنی ہیروئین نورجہاں کے بڑے پرستار تھے۔ ڈرامہ ان کہی میں سلیم ناصر کی اداکاری کے بہت معترف ہوئے۔ پاکستان پہلی بار وہ فاطمید کےناظم جیوا کی دعوت پر تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کی فنڈ ریزنگ کے لئیے آئے۔

اسکے بعد شوکت خانم اسپتال کی فنڈ ریزنگ اور حکومت پاکستان کی دعوت پر نشان پاکستان کا اعزاز لینے آئے۔ پاکستانیوں نے انکی پاکستان آمد پر پلکیں بچھادیں جبکہ حکومت پاکستان نے انکو سرکاری مہمان کا درجہ دیا۔ دلیپ صاحب معین اختر کی صلاحیتوں کے بہت معترف تھے، انکی خواہش ہوتی تھی کہ پاکستان میں انکے شوز کی میزبانی صرف معین اختر  انجام دیں۔

پاکستان کے علاوہ بھی معین اختر نے انکے شوز کی میزبانی کی۔
فن اداکاری کے علاوہ دلیپ کمار ایک دانشور،  سوشل ورکر، شعر و سخن کی سوجھ بوجھ اور اردو زبان سے پیار کرنے والے انسان تھے۔ جب وہ اردو بولتے تھے تو کوئی یقین نہیں کرسکتا تھا کہ یہ گھر میں اپنے بھائیوں سے ہندکو میں بات کرتے ہیں۔ دلیپ کمار کے دو بھائی کورونا کی وبا سے انتقال کرگئے جبکہ پچھلے دو سالوں میں پیرانہ سالی کی وجہ سے انکی صحت کے حوالے سے انکے پرستار اندیکھے خدشات کا شکار رہئے۔

جو دنیا میں آیا ہے وہ اپنے وقت پر لوٹ کر بھی جائے گا،  یہ بات انکے پرستار بھی جانتے تھے لیکن ان کے دلوں سے یہ معصومانہ دعا نکلتی تھی کہ قدرت انکو 100 سال کی زندگی عطا فرما دے اور ان کے نام کے آگے سنچری جڑ جائے، لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا اور دلیپ کمار اپنی سنچری نہ کر سکے۔ کیا دلیپ کمار 98 پر آئوٹ ہوگئے، ہرگز نہیں۔کیوں کہ دنیا میں آج تک کوئی ایسا باؤلر نہیں پیدا ہوا جو دلیپ کمار کو آئوٹ کرسکے۔ لوگ مرا کرتے ہیں ادارے نہیں ۔دلیپ کمار ایک مکمل پیکج کے ساتھ ادارہ تھے، نئے آنے والے اس ادارے سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ یوسف صاحب آپ ہمیشہ ناٹ آئوٹ رہئے اور ناٹ آئوٹ رہیں گے، ہمارے دلوں میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :