تیرے پراسرار بندے

ہفتہ 8 جنوری 2022

Azhar Idrees

اظہر ادریس

اگر کوئی آپکو کسی ایسے کام کے لئیے قصوروار ٹھہرائے کہ جس میں آپکا کوئی لینا دینا نہ ہو یا کسی کمی اور معذوری کے سبب کسی کو تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بنایا جائے تو یقینا" تمام لوگوں کی ہمدردیاں اس متاثرہ شخص کے ساتھ ہونگی اور اس عمل کے پیچھے فرد یا افراد کی بیخ کنی بھی کی جائے گی۔ لیکن صد افسوس کہ مذکورہ بالا منظر ناموں سے کہیں بڑھ کر ہمارے معاشرے میں کچھ مظلوموں پر نہ صرف تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں بلکہ سگے رشتے  بھی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

خواجہ سرا، زنخا، ہیجڑا یہ تو ان مظلوموں کے قدرے مہذب نام ہیں  جو اب سننے میں کم ہی آتے ہیں، انکی جگہ اب عامیانہ ناموں نےلےلی البتہ پڑھے لکھے لوگوں میں ٹرانس جینڈرکی اصطلاح اب کافی عام ہوگئی ہے۔

(جاری ہے)


ٹرانس جینڈر کا وجود یقینا" نیا نہیں ہے لیکن اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں قائم کی جاسکتی ہے کہ حضرت انسان نے باقاعدہ طور پر انکو کب محسوس کیا۔

برِصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ان لوگوں کو باقاعدہ الگ صنف گردانا جاتا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کہ یہ معاشرے کا کارآمد حصہ رہیں۔اس زمانے میں دربار اور سرکار کی سطح پر انکی تعیناتی کی جاتی تھی اور کچھ خواجہ سرا اپنی قابلیت کی بناء پر کلیدی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ جیسے ملک کافور نے فوجی امور کی بھی دیکھ بھال کی، جبکہ ببرک شاہ بنگال کا فرماں روا رہا۔

علاءالدین خلجی کے دور میں خواجہ سراؤں کو خاصا عروج حاصل رہا اور فنون لطیفہ سمیت یہ لوگ کئی تخلیقی شعبوں سے وابستہ رہئے۔ محل سرا میں زنان خانوں میں حفاظت اور پیغام رسانی کے لئیے انکی خاص طور پر تعیناتی کی جاتی تھی،غالبا" اسی وجہ سے انکا نام خواجہ سرا پڑا۔ انگریزوں کی ہندوستان آمد کے بعد طبقاتی تفریق کی وجہ سے ان پر باعزت روزگار کے دروازے بند ہوتے چلے گئے اور نتیجتا" ان لوگوں نے ناچ گانے کو اپنا پیشہ بنالیا۔

اس زمانے میں خواجہ سراؤں کو پس منظر میں ڈالنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ انگریزوں کو انکے اوپر جاسوسی کا شبہ تھا،  بہرحال وجہ کوئ بھی ہو یہاں سے اس طبقے کا اخلاقی و معاشی زوال شروع ہوا اور انکے حوالے سے مافوق الفطرت کہانیوں نے جنم لیا کہ یہ بچوں کو اغوا کرکے انکو مردانہ خصائل سے محروم کردیتے ہیں، انکا جنازہ نہیں ہوتا، رات گئے خاموشی کے ساتھ دفن کردیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔


اگر ہم آج کے خواجہ سرا کی زندگی کا جائزہ لیں تو سوائے مظلومیت کے ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ بڑے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے تو پھر فیشن انڈسٹری میں کھپ جاتے ہیں دوسرے انکے ماں باپ کو اسکی کچھ خاص پرواہ نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اصل امتحان متوسط طبقے کے لئے ہوتا ہے جہاں شادی ہوتے کے ساتھ ہی بچے کے حوالے سے تجسّس شروع ہوجاتا، ایسے میں اگر اس طرح کی کوئی غیر متوقع صورتحال سامنے آجائے تو ماں باپ بچارے جھوٹ بولنا بھی چاہیں تو بول نہیں سکتے۔

تھک ہار کر ماں باپ اپنے جگر گوشوں کو انکے دائمی ٹھکانوں پر پہنچادیتے ہیں  یا پھر خواجہ سرا کمیونٹی کے لوگ جو ایسے بچوں کے کھوج میں رہتے ہیں انکو حاصل کرلیتے ہیں۔ اسکے بعد ایسے بچوں کے سارے خونی رشتے منہ موڑ لیتے ہیں اور ان نئے رشتوں میں ہی اسکو پناہ ڈھونڈنی پڑتی ہے، اسکے بعد بھوک، غربت، بیماری اور ذلت سے بھرپور جو سفر شروع ہوتا ہے وہ قبر میں جاکر ہی پیچھا چھوڑتا ہے۔

کیا بچے کیا بڑے قدم قدم پر انکو تضحیک اور مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں تواتر کے ساتھ ایسے واقعات سننے میں آرہئے تھے کہ خواجہ سرا کو پروگرام کے دوران یا بعد میں گولی مار دی گئی۔ گھر اورمحلے سے اٹھ کر جب تقریبات ہالز میں منتقل ہوئیں تو انکا ناچ گانے کا سلسلہ بھی محدود ہوگیا نتیجتا" انھوں نے پیٹ بھرنے کے لئے بھیک مانگنی شروع کردی اور شہروں میں کوئی ایسا مصروف سگنل نہیں بچا جہاں یہ نظر نہ آتے ہوں۔

خواجہ سراؤں کے حوالے سے یہ بات بھی محض الزام نہیں ہےکہ یہ جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوکر خطرناک بیماریاں پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ انکا کردار کہیں میڈیا میں تفریح کے لئے پیش کیا جانے لگا جہاں محمود اسلم اور سلیم ناصر مرحوم نے اپنی اداکاری سےمزاح والےکردار میں جان ڈالی وہیں یاسر نواز نے اپنے ایک کردار اور شعیب منصور نے فلم بول کے ذریعے انکی بے چارگی اور معاشرے کے ظلم کو بہت اچھے طریقے سے بیان کیا۔


خواجہ سراؤں کی اس گھٹن زدہ زندگی میں اب کہیں کہیں کچھ تازہ ہوا کے جھونکے بھی محسوس کئے جانے لگے ہیں۔
 نیشا رائو وکیل بنیں، ایک خواجہ سرا ڈاکٹر بنی، اسی طرح ایک چینل نے نیوز کاسٹر بننے کا موقع دیا۔ رانی خان نے مدرسہ کھولا۔ نایاب علی، الماس بوبی اور باجی بینش نے اپنی کمیونٹی کے لئیے مختلف فورمز پر آواز بلند کی۔ ایک عام آدمی کے لئیے تعلیم حاصل کرنا اور پھر اپنا آپ منوانا کتنا مشکل ہوتا ہے تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان بیچاروں کے لئیے تو ایسا سوچنا بھی محال ہے۔

عدالتی احکامات کے ذریعے شناختی کارڈ سمیت وراثت اور جملہ انسانی حقوق گو کہ قانونی طور پراب انکو حاصل ہیں، لیکن ایک شناختی کارڈ بنوانے کے لئے ان لوگوں کو جو پہاڑ سر کرنے پڑتے ہیں وہ یہی جانتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نادرا کے ریکارڈ پر ٹرانس جینڈر لگ بھگ دس ہزار ہیں جبکہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق انکی تعداد پچاس ہزار سے اوپر ہے۔

شناختی کارڈز نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کی اگر کوئی صورت ہو بھی تو یہ امید شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہے۔شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے انکی بڑی تعداد ابھی تک کورونا ویکسین نہیں لگواسکی جو کہ نہ صرف انکے لئیے بلکہ پوری سوسائٹی کے لئیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ لہذا انکے لئیے شناختی کارڈ کا حصول آسان بنایا جائے، بہتر ہوگا کہ نادرا کا عملہ انکی بستیوں میں پیشگی اطلاع کے ساتھ پہنچ کر ساری ضابطے کی کاروائی پوری کرے اور انکو ڈاک کے ذریعے انکے پتوں پر انکے شناختی کارڈ بھیج دیئے جائیں۔


 ‏تھائی لینڈ میں انہوں نے نےاپنی ائرلائن سمیت مختلف شعبوں میں ان لوگوں کو کھپایا ہے، پتایا کے ساحلی شہر میں الکازار کے نام سے ایک سقافتی اور مزاحیہ شو ہوتا ہے جس میں بغیر شناخت ظاہر کئے ٹرانس جینڈر حصہ لیتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو پروگرام کے بعد خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اتنے پیشہ ورانہ طریقے سے پروگرام پیش کرنے والے خواجہ سرا تھے۔

بھارت اس معاملے میں ہم سے کافی آگے ہے انھوں نے انکے اوپر کافی کام کیا ہے۔ ٹیکس کی ریکوری میں انہوں نے خاطر خواہ نتائج پیش کئیے۔ ٹریفک قوانین کے حوالے سے خواجہ سراؤں پر مشتمل انکا ایک اشتہار بہت متاثر کن تھا۔ تمنا فلم جس میں پاریش راول جبکہ شبنم فلم میں اشوتوش رانا نے بڑی متاثر کن اداکاری کی، شبنم فلم حقیقی کردار شبنم موسیٰ پر بنائی گئی ہے جوکہ پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوئیں۔

بھارتی مغربی بنگال کے ایک گرلز کالج کی پرنسپل خواجہ سرا ہیں۔ ہم جب گھر کے لئیے ڈرائیور تلاش کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھا بھالا ہو، لیڈیز نے اکیلے آنا جانا ہے تو کیا ایسا ڈرائیور بیسٹ چوائس نہیں ہوسکتا۔ درزی، ویٹر، خانساماں مالی پتہ نہیں کتنے پیشے ہیں جنکو اختیار کر کے یہ ازلی مظلوم باعزت روزگار کماسکتے ہیں۔ہمارے ملک میں عدالت نے تو اپنا کام کردیا لیکن ان لوگوں کا اصل مسئلہ سماجی ہے، سماج جب تک انکو خاص لوگ سمجھتے ہوئے عزت نہیں دے گا انکے لئیے امید کا سورج نہیں طلوع ہوگا۔


 خاص بچوں کے لئے خاص اسکول ہوتے ہیں تو پھر ان بہت ہی خاص بچوں کے لئے الگ اسکول کیوں نہیں ہوسکتے، سب کچھ ممکن ہے بس خلوص نیت کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں اگر پورے ملک میں صرف ایک بھی اقامتی ادارہ بنادیا جائے جو کہ انٹر میڈیٹ تک ہو اورجہاں نرسری شروع ہوتے ہیں بچوں کو داخل کرادیا جائے اور اقامتی درس گاہوں کے تجربے کار اساتذہ اور عملے کی بمع ماہر نفسیات یہاں تعیناتی کی جائے۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر سکھانے کا بھی انتظام ہو، تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے پورے مواقع ہوں اور بچے کے رجحان اور پوٹینشل کے مطابق اسکی گرومنگ کی جائے۔ جو بچے انٹر میڈیٹ کے بعد پیشہ ورانہ شعبوں میں جانے کی قابلیت رکھتے ہوں انکی شخصیت سازی پر خاص توجہ دی جائے، ماہر نفسیات کے ذریعے زہنی طور پر مضبوط بنایا جائے تاکہ وہ باہر کے چیلنجز سے نبرد آزما ہو سکیں۔

یہاں طبی ماہرین سے بھی ہمارا سوال ہے کہ ایسی کوئی صورت ہے کہ ہارمونل تھراپی کے ذریعے شروع میں ہی ایسے بچوں کا علاج کیا جاسکے  اگر ایسا ممکن ہے تو اس حوالے سے ماں باپ کے لئیے موثر آگاہی مہم چلائی جائے۔
 اب ایک آخری بات انکا مذاق اڑانے سے پہلے صرف ایک لمحے کو یہ ضرور سوچ لیجیے گا کہ میرے گھر آنے والا بچہ ایسا ہوا تو میں کیا کرونگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :