
اماوس کا چاند
ہفتہ 23 فروری 2019

ڈاکٹر عفان قیصر
(جاری ہے)
میرے سامنے ہسپتال کے بستر پر آدھی سے زیادہ جلی ہوئی منیبہ لیٹی تھی، وہ چیخ رہی تھی اور میں بے بس تھا۔ منیبہ کے ساتھ ، میرا رشتہ بہت عجیب تھا۔ دس بارہ سال کی یہ بچی غربت کی تصویر بنے ،میری بیگم کے ایک مریض کے طور پر سامنے آئی۔ لاغر، کمزور، نحیف، گھر ذکر ہوا، تو دل میں خیال آیا کہ کیوں نا اس کو پڑھایا جائے، ہماری اپنی بیٹی بھی ہنسنا سیکھ رہی تھی تو صبح منیبہ سکول جائے گی اور شام ہماری بیٹی کے ساتھ کھیل لیا کرے گی۔ چند ماہ منیبہ ہمارے گھر رہی، مجھے آج بھی یاد ہے کہ میری بیٹی نے پہلی بار کھل کھلا کر ہنسنا اسی سے سیکھا تھا۔ ایک عمر بیت سکتی ہے ، مگر وہ پہلی ہنسی ، نہیں بھلائی جاسکتی۔ سب ٹھیک جارہا تھا۔ مگر پھر غربت کی ماری ماں، نشئی باپ کے کہنے پر منیبہ کو یہ کہہ کر ساتھ لے گئی کہ اسے کام پر جانے ہوتا اور یہ چھوٹے بہن بھائی سنبھالے گی۔ ہمارے گھر منیبہ کا مستقبل تھا، تعلیم تھی اور یہ سب بس اہلیہ کی رحم دلی تھی ، مگر قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔ وہ چلی گئی، اور یوں ہماری زندگی سے منیبہ کا باب بند ہوگیا۔ ایک روز مجھے گھر سے فون آیا کہ منیبہ پر اس کے گھر میں ابلتا پانی گر گیا ہے، اس کی ماں کا مدد کے لیے فون آیا ہے ۔ ڈاکٹر ہونے سے زیادہ ، میری بیٹی کی پہلی ہنسی کا قرض تھا، جو مجھے چکانا تھا،چنانچہ یہ مدد سے زیادہ ادائیگی تھی۔ اس کی چیخیں تھیں اور ادھر میں تھا، لاچار، بے بس۔ وہ 55 فیصد تک جل گئی تھی۔ ایسے میں جسم میں انفیکشن پھیلنے کی صورت میں بچنا ناممکن تھا۔ چیلنج سمجھ کر منیبہ کی مدد کا سلسلہ شروع کیا تو راستے جڑتے گئے۔ایک خیرخواہ نے اٹلی سے خطیر رقم بجھوائی، کافی مدد گھر سے مل گئی ۔ منیبہ کو بہترین علاج کی ضرورت تھی،اور اس کے لیے منیبہ کو راولپنڈی سے ملتان بجھوانا ضروری تھا۔اس سلسلے میں نشتر ہسپتال سے ملحقہ پاک اٹلی برن یونٹ کے سربراہ اور میرے بہترین دوست اور استاد پروفیسر ڈاکٹر ناہید احمد چوہدری سے وٹس ایپ پر منیبہ کے علاج پر مشورہ شروع کیا۔ ڈاکٹر ناہید نے اس کیس کو چیلنج سمجھ کر میری مدد کی حامی بھر ی ۔ ہر آنے والا دن، مشکل تھا، منیبہ کو سخت بارش میں سرد رات ملتان روانہ کیا گیا۔ وہاں منیبہ کو یقینا پھولوں کی طرح رکھا گیا۔اس کا ہر ممکن علاج جاری تھی۔ اس لڑکی نے چھوٹی سی عمر میں نجانے کیا کیا دیکھ لیا تھا۔ شدید غربت و افلاس، ایک نشے کی لت میں پڑا باپ ، بھوک سے بلکتے چھوٹے بہن بھائی اور اب یہ موت سے لڑتی شکستہ زندگی۔ اس زندگی کی کشمکش میں منیبہ کے ساتھ چار سال کی عمر میں Child abuse کے بارے میں بھی معلوم ہوا تو اسے بچانے کی کشمکش اور تیز ہوگئی۔ ڈاکٹر ناہید مجھے وٹس ایپ پر اس کے بارے میں ایک ایک اپ ڈیٹ بہت تفصیل سے دیتے کہ کہیں ہمارے حونصلے پست نہ ہوں، جو چیلنج ہم سب نے قبول کیا ہے ،ہم سب اس میں سرخرو ہوجائیں۔ اماوس کے چاند کی کہانی اور منیبہ کی زندگی میں کچھ فرق نہیں تھا۔منیبہ کی پوری زندگی سرد بارش زدہ تاریک رات جیسی تھی، اماوس کی وہ کالی رات کہ جس نے کبھی چاند کی روشنی دیکھی ہی نہیں۔ چار سال کی عمر میں معاشرے کی حوس سے بھری سچائی، پھر غربت، مایوسی، افلاس، رونا، باپ کی اوارگی،ماں کی بے چارگی، نجانے کس کس گھر میں کام کرتی کیا کیا دیکھتی آئی تھی۔وہ ایک ایسے گھر کی چھوٹی تھی، کہ جہاں وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑی کا کردار ادا کرتی آئی تھی اور پھر غربت کے تھپیڑوں میں ہی یہ حادثہ۔ماں نے چھوٹی بہنوں کے لیے پانی رکھا،وہ گرم ہوا اور رات کہ کسی پہر ،اس کی زندگی کی تاریک رات اسے وہاں تک لے آئی۔ میں رات کے آخری پہر اپنے گھر لوٹ رہا تھا،اسلام آباد کی سڑکیں ویران تھیں، یہ اماوس کی رات تھی،گھڑی پر دو بج رہے تھے۔ گاڑی کی رفتار تیز تھی۔فون بجا اوردوسری طرف منیبہ کی ماں کی رونے کی آواز آئی ۔ منیبہ جس رات کی مسافر تمام عمر رہی ،اسی رات وہ لوٹ گئی۔ جس عمر میں آپ کو اپنا آپ معلوم نہیں ہوتا، منیبہ زندگی کا مطلب بہت تفصیل سے سمجھ کر، موت کو بھی گلے لگا چکی تھی۔ وہ اماوس کا وہ چاند تھی، جو عمر بھر روشنی کو ترستارہا، مگر اس کی قسمت کی کالی لکیروں نے کبھی کسی اجالے کا رخ اس کی جانب نہ مڑنے دیا۔ شاید ہمارے معاشرے میں ایسے کئی کردار خاموشی سے ہی اماوس کی رات میں اپنا مقدر لکھوا کر آتے ہیں اور لوٹ جاتے ہیں، اور ہم غافل پونم کی راتوں میں اپنی روشن زندگیوں کے رقص میں اس قدر محو ہیں کہ ہمیں وہ اندھیرا دکھائی ہی نہیں دیتا، ہماری زندگی میں اجالوں سے چند ھیائی آنکھیں ، ہمیں اماوس کے ان اندھیروں کی جانب جانے ہی نہیں دیتی ، جو شاید ہمارے گھروں سے چند فرلانگ دو ر کسی نہ کسی غریب کی کٹیا میں پل رہے ہوتے ہیں۔ مظہر نصار کی کتاب The Mahogany Junction میں اماوس کی رات کے چاند کی تشکیل سے عمل سے میں نے خود کو گزارا۔ میں نے بھی اماوس کی تاریک رات میں اپنا چاند تشکیل دیا ، اور اس میں مجھے میری بیٹی کی وہ پہلی ہنسی یاد آئی کہ جس کے پیچھے وہ تھی ، اماوس کا چاند ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر عفان قیصر کے کالمز
-
اس ملک کا ینگ ڈاکٹر
جمعرات 26 اگست 2021
-
خواجہ سراء کی سوچ، ایڈز اور ہم
پیر 16 اگست 2021
-
انٹرنیشنل میڈیا اور دنیا
جمعرات 29 جولائی 2021
-
شکریہ جناب گورنر پنجاب
پیر 8 فروری 2021
-
کورونا اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ٹیلی سروسز
اتوار 6 دسمبر 2020
-
خدائی سلسلے
اتوار 1 نومبر 2020
-
بیٹی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
کویڈ 19 اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی مثالی خدمات
جمعہ 18 ستمبر 2020
ڈاکٹر عفان قیصر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.