عقبی چہرہ

جمعہ 19 اپریل 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

وہ رات کیسے بھلائی جاسکتی ہے۔ میڈیکل آئی سی یو میں سخت ڈیوٹی کے بعد ایک ستر سال کے بابا جی جو ایک ہفتے پہلے مر چکے تھے، فجر کے وقت ان کے امریکہ ،کینیڈا سے آئے بیٹوں کے پہنچنے پر مصنوعی سانس کی مشین سے اتارنے کا انتظام کرنا تھا۔ میں کاؤنٹر پر بیٹھ کر ایک کتاب پڑھنے لگا۔ یہ دو چہروں والے شخص ایڈورڈ مورڈیک کی کہانی تھی۔جس کے سر کی اگلی اور پچھلی دونوں طرف چہرے تھے اور اگرچہ عقبی جانب والا چہرہ بولتانہیں تھا لیکن سرگوشیاں اور آنکھوں سے اشارے ضرور کرتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ایڈورڈ برطانیہ کے ایک نواب خاندان میں پیدا ہوا اور اگرچہ وہ سامنے سے دیکھنے پر بہت خوش شکل نظرآتا تھا لیکن اس کے سر کے پچھلی طرف والا چہرہ بہت بدشکل تھا۔اس کا ایک چہرہ اس کے سر کے پیچھے تھا لیکن یہ سر کے پیچھے والا چہرہ نہ کھاتا تھا نہ پیتا تھا۔

(جاری ہے)

یہ صرف روتا اور ہنستا تھا۔ ایڈورڈ نے کافی دفعہ ڈاکٹروں سے گزارش کی کہ میرے سر کے پچھلی جانب والا چہرہ آپریشن کرکے ہٹا دیں یہ رات کو مجھے سونے نہیں دیتا یہ رات کو خوفناک قسم کی سرگوشیاں کرتا ہے۔

لیکن ڈاکٹرز نے یہ آپریشن کرنے کا رسک نہ لیا۔ کیونکہ اس آپریشن میں اس کی جان بھی جاسکتی تھی۔ جیسے جیسے وہ جوان ہوتا گیا اس کا عقبی چہرہ مزید قبیح ہوتا گیا اوراس کی شیطانی سرگوشیوں اور خوفزدہ کر دینے والی آنکھوں کی دہشت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ایڈورڈ اپنے عقبی چہرے کی وجہ سے ہمیشہ سخت رنجیدہ رہتا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ یہ ساری رات سرگوشیاں کرتا رہتا ہے اور اسے کبھی چین نہ لینے دیتا۔

یہ چہرہ ہر آتے جاتے شخص کو گھورتا بھی اور انہیں دیکھ کر عجیب وغریب انداز سے بڑ بڑاتا بھی ہے۔ جب ایڈورڈ اپنی حالت زار پر روتا تویہ شیطانی چہرہ طنز یہ مسکراہٹ سے کھل ا ٹھتا، ایڈورڈ نے اپنی تکلیف سے دل شکستہ ہو کر بالآخر 23 سال کی عمر میں زہر کھا لیا اور ایک خط چھوڑ ا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کے عقبی چہرے کو تدفین سے پہلے کاٹ کر علیحدہ کر دیا جائے تاکہ وہ قبر میں اس کے شر سے محفوظ رہ سکے۔

ایسا ہی کیا گیا اور موت کے بعد اس کو اپنے مکروح چہرے سے کسی طور نجات مل گئی۔ قدیم حکایتوں میں ایک حکایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے مرشد کی بہت خدمت کی، وہ دن رات اس کی مجلس میں رہتا، مرشد کا ہر حکم مانتا۔ ایک دن مرشد نے مرید سے پوچھا کہ جو مانگتے ہو بتاؤ، وہ کہنے لگا کہ مجھے موت سے ڈر لگتا ہے، کچھ ایسا کریں کہ موت نہ آئے۔ مرشد نے کہا،یہ ممکن نہیں ، مگر اتنا تصرف تمہیں عطا کرسکتا ہوں کہ تم موت کے فرشتے عزرائیل کو دیکھ سکو گے اور تمہیں اپنی موت کا علم ہوجائے گا۔

اب وہ مرید جس کے پاؤں کے پاس موت کا فرشتہ دیکھتا، اعلان کردیتا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ خود بہت بڑا پیر بن گیا،اس کے لاکھوں مرید دن رات اس کے دربار حاضری دیتے۔ ایک دن وہ پیر اپنی چارپائی پر آرام فرما رہے تھے کہ پاؤں کی جانب حضرت عزرائیل کھڑے نظر آئے،وہ جانتا تھا کہ اس کی جان نکالی جانی ہے، اس نے فوری کروٹ لی اور دوسری جانب لیٹ گیا۔

دوسری طرف بھی پاؤں کی جانب موت کا فرشتہ نظر آیا تو وہ یہ کروٹ کا عمل دھرانے لگا۔پیر کے مرید کافی دیر پیر کو یوں تڑپتا دیکھتے رہے،انہوں نے پیر کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ ہاتھ چھڑا کر بھاگنے لگا ، مریدین سے یہ سب دیکھا نہ گیا،پیر صاحب کو پکڑا اور چارپائی سے باندھ دیا۔وہ پٹ پٹ آنکھیں گھماتا موت کے سامنے تھا، اور اس کی جان قبض کر لی گئی اور مریدین تماشہ دیکھتے رہے۔

صبح کے پانچ بج چکے تھے، با با جی کے تین بیٹے، آئی سی یو میں ان کے بیڈ کے پاس آئے، بابا جی دو ماہ سے آئی سی یو میں تھے اور میں نے یہ تین چہرے پہلی بار دیکھے تھے، یہ تینوں امریکہ اور کینیڈا میں بڑے عہدوں پر تھے،ایک ان میں ڈاکٹر تھا، ایک وکیل تھا اور تیسرا بزنس کرتا تھا شاید۔ وکیل صاحب اور ہسپتال کے ڈائیریکٹر کی ٹیم ساتھ تھی۔ وکیل نے تینوں بھائیوں کی موجودگی میں بابا جی کی تقریبا لاش کے انگوٹھے پر سے آکسیجن چیک کرنے والا Pulse Oximeter اتارا اور اسی انگو ٹھے سے چند کاغذوں پر نشان لگانے لگا۔

یہ گاؤں کے مربع تھے جو بیٹے اپنے اپنے نام کرنے آئے تھے۔اس سارے عرصے میں بابا جی کے پیروں والی سائڈ پر یہ تینوں بیٹے کھڑے رہے اور بابا جی کی سانس چلتی رہی، دماغ جسے ہم میڈیکل زبان میں Brain Death کہتے ہیں، پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔ میرا دماغ اس سارے عمل میں ڈاکٹری سے زیادہ یہ سوچتا رہا کہ اس بابا جی کے بیٹوں کے ایڈورڈ مورڈیک کا رات کے اس آخری پہر کونسا چہرا جلال میں ہے، جو مجھے دکھائی دے رہا تھا ،وہ مکروح تھا،وہ جسے کاٹ پر پھینک دینا چاہیے تھا،ساتھ ساتھ ایک گونج یہ بھی سوچنے پر مجبور کررہی تھی کہ بستر کی جس سائڈ پر یہ تینوں کھڑے ہیں،وہاں موت کے فرشتے کی جگہ کونسی ہوگی؟ یا شاید وہ انہی تینوں میں سے کوئی تھا، مگر یہ ان کی اولاد تھی، فرمانبردار اولاد۔

خیر وینٹیلیٹر آف کرتے ہی بابا جی کی سانس اکھڑنے لگ گئی، اور تھوڑی دیر بعد ہی مانیٹر پر چلنے والی ای سی جی کی لائینیں بھی سیدھی ہوگئیں اور بیس پچیس منٹ بعد آئی سی یو سے وہ دو رخ لیے چہرے، ستر سال کا امیر کبیر بابا، مردہ حالت میں سب لٹا کر جاچکا تھا۔ مجھے ہسپتال کے ڈائیریکٹر نے ان کی مکمل سمری تیار کرنے کا کہا اور میں بھی مارے تجسس سب پڑھنے لگا، یہ ستر سال کے بابا جی ایک کسان کے بیٹے تھے، پانچ بہن بھائی تھے ، سب پاکستان سے باہر تھے اور انہوں نے ایک سرکاری ادارے میں کلرک کی نوکری سے آغاز کیا تھا، پھر ان کی ہسٹری نے تاریخی موڑ لیے، یہ کب اتنی زمین کے مالک بنے؟کب اپنے علاقے سے الیکشن جیتے ؟اور کب ان کو دل کا عارضہ لاحق ہوا؟یہ سب کچھ عجیب ہی کہانیاں بیان کررہا تھا۔

میرے سامنے باباجی کی زندگی کے ادوار کے دو چہرے تھے،ایک سادہ اور معصوم اور دوسرا شاید اسی ملک میں حاصل کیا،جائز ناجائز وہ سب کچھ جو انہیں یہا ں لے آیا تھا۔ ایسے چہرے تو شاید ہم میں سے ہر کسی کے اندر ہوتے ہیں۔ ایک اچھا جورب بہت محنت اور پیار سے بناتا ہے، جس کے کان میں پہلی اذان دی جاتی ہے ،جو ماں کے ایک بوسے کا متلاشی ہوتا ہے اور جسے طرح طرح کے میک ایپ، فیس پالش،یا خوبرو شیو سے انسان سجائے رکھتا،وہ مسکراتا ہے تو اس کے ارد گرد کی تمام دنیا مسکراتی ہے اورجس کی چہک سے آنگن مہکتے ہیں اور دوسرا وہ جو تنہائیوں میں سرگوشیاں کرتا ہے، غلط پر آمادہ کرتا ہے اور کبھی انسان کو سکون سے جینے نہیں دیتا۔

وہ عقبی چہر ہ ہوتاہے اس لیے وہ ملک الموت کی حقیقت بھی نہیں جانتا ،وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ جب پیروں سے روح قبض کی جاتی ہے تو بظاہر خوبصورت نظر آنے والا چہرہ کس کرب سے گزرتا ہے،زندگی میں اس کا کیا سب کیسے سامنے آتا ہے ؟ اس کے اپنے کیسے اس سے باندھ کر اپنی زندگیاں سکھی کرنے کے لیے اس کے عقبی چہرے کو اس کے خوبرو چہرے پر حاوی کرکے اس کو چارپائی سے باندھ دیتے ہیں۔

وہ جن کی خاطر بند کمروں میں سرگوشیوں میں انگوٹھے لگاتا ہے،وہ کیسے اسے باندھ کر انگوٹھے لگواتے ہیں اور اس عمل میں ان کا عقبی چہرا نجانے کن کے کہنے پر ان کے کانوں میں کیا سرگوشیوں کرتا ہے؟ یہ سب پراسراریت پر مبنی عجب داستانوں کا کھیل ہے، جس کی اصل حقیقت کوئی نہیں جانتا۔ فجر کی آذان روز کتنی بارکانوں میں گونج کر اصل چہرے کو ہر صبح اس کی زندگی کی پہلی اذان کی طرح ترو تازہ کرنے کی جہد کرتی ہے ،وہ رات بھر عقبی چہرے کی نحوست کو دھونے کی کوشش کرتی ہے، مگر ہماری ذاتی زندگی میں وہ عقبی چہرہ ہم پر حاوی رہتا ہے۔

جس کا عقبی چہرا جتنا اصل کو ڈھانپ لیتا ہے،اتنا ہی انسان دنیا کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ حتی کہ وہ اربوں روپے کی کرپشن کرتا ہے، کرسیوں سے چپٹا رہتا ہے، ادارے برباد کردیتا ہے ،ملک کے خزانے خالی کردیتا ہے، کئی لوگوں کی لاشوں کی کھوپڑیوں کے پہاڑ بنا کر اپنی فتح کا جشن مناتا ہے، شہر کے شہر لاشوں سے بھر دیتا ہے، دنیا کے ہر بڑے بینک کے اکاؤنٹ لوٹے لاکھوں ڈالروں سے بھر دیتا ہے، مگر آخر میں جب اصلی چہرے کو ملک الموت دکھائی دینے لگتا ہے،تو جن کے لیے وہ یہ سب کر تا ہے وہ خود،اس کی سانسیں روک کر اس کو حساب کے لیے روانہ کرتے ہیں۔

تاریک ویرانوں کے گمناموں گوشوں سے منوں مٹی تلے ایک گونج سنائی دیتی ہے، ایڈورڈ مورڈیک کی زندگی کے 23 سال وہ چہرا اس کے ساتھ رہا،اور موت کے بعد کاٹ کر پھینک دیا گیا کہ اس کو سکون آجائے، وہ جن کا حساب ہی عقبی چہرے سے شروع ہوگا،وہ کب اس وحشت سے چھٹکارا پائیں گے۔ کیا یہ آخری ہچکی کے بعد کی دنیا ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :