کامیابی،زندگی اور شاہین

اتوار 28 جولائی 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

 مجھے آج بھی یاد ہے جب میں اپنے چند ڈاکٹر دوستوں کے ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے نجی ہسپتال کے ایک خاموش کمرے میں بیٹھا تھا۔ یہ کمرہ ہم سب کے لیے اس وقت عالم ِ ہو کا منظر پیش کررہا تھا۔ ہر طرف سناٹا تھا، ہم سب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے، رات کے تین بج رہے تھے، باہر شدید بارش ہورہی تھی۔ ڈاکٹر شاہین کو فالج کا بدترین دورہ پڑا تھا۔ شاہین مجھ سے سینئر ،مگر گہرا دوست تھا۔

ایک سپیشلائیزیشن مکمل کرنے کے بعد معدہ جگر میں دوسری کے لیے خوشاب سے یہاں آیا تھا۔ خوشاب میں بہترین پریکٹس تھی، بیوی بچے وہاں خوش تھے، بہترین گھر تھا، مگر سب چھوڑ کر یہاں آگیا۔
 پینتیس چھتیس سال کی عمر میں ہاسٹل کا گندا ترین کمرہ، غلیظ باتھ روم اور عجیب و غریب سا کھانا۔کیا زندگی تھی؟ سمجھ سے بالاتر تھی؟ پھر کام کی جگہ کا سٹریس بھی بہت تھا۔

(جاری ہے)

ایک رات بارہ بجے ایمرجنسی کا راؤنڈ کرنے کے بعد ہاسٹل کی جانب جارہا تھا تو ہاسٹل کے باہر گرا پڑا ملا۔ کسی نے دیکھ لیا، میں گھر تھا، فون آیا، اٹھ کر ہسپتال بھاگے، دماغ کی شریان میں خون کا لوتھڑا پھنسا تھا،اس کو نکالنے کے لیے جدید علاج سرکاری ہسپتال میں نہیں تھا، تو نجی ہسپتال کا رخ کیا اور وہاں اب شاہین کو جدید ترین ،مگر خطرناک پروسیجر کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔

ایسے میں دو ہی راستے تھے،یا شاہین مکمل بچ جاتا اور اپاہج بھی نہ رہتا یا پھر مر جاتا۔ ایک تیسرا راستہ تھا کہ یہ آپریشن نہ کیا جاتا، شاہین بچ جاتا مگر اپاہج کی زندگی گزارتا اور یہ راستے ہم میں سے کوئی ڈاکٹر اپنے لیے بھی ہرگز منتخب نہ کرتا۔ 
اس کمرے میں جب سب چپ بیٹھے تھے، باہر بارش اور بادلوں کی گرج میں مجھے بابا جی یاد آنے لگے۔

ان کا رگوں میں اتاری دنیاوی آلودگی کا درس یاد آنے لگے۔ بیٹا دنیا میں اتنے گم نہ ہوجانا کہ اپنا آپ بھول جاؤ، اپنا آپ بھول جاؤ گے، رب بھول جائے گا اور جس دن رب بھول گیا،رب تمہیں بھول جائے گا۔ دنیا میں کامیابی کا جنون اچھا ہے ، مگر یہ کسی انسان کو بعض اوقات ایسی مشین بننے پر مجبور کردیتا ہے جہاں انسان اپنا آپ بھول کر بس مشین بننے کی کوشش کرتا ہے، انسان کی کامیابی میں جب فلاح نکل جاتی ہے تو وہ انسان نہیں رہتا، مشین بن جاتا اوریوں چلنے والی مشینیں خراب ہوجایا کرتی ہیں۔

 
بابا جی کہتے ہیں کہ انسان کے دل کے قریب ایک بہت بڑا طاقچہ ہے اور اس طاقچے کے اندر بہت گہرے دراز ہیں،انسان اگر ان میں دنیا کو جمع کرنے لگ جائے اور ان کی صفائی کی فکر نہ کرے تو ان میں آلودگی آجاتی ہے، من کی آلودگی۔ بیٹا تمہیں دنیا کے پیسے سے زکوتہ ، فطرانے ،صدقے کا حکم کیوں ہے؟ یہ طاقچے کے درازوں میں فلاح ڈالنے جیسا ہے، مطلب تم دنیا کے پیچھے پاگل ہوجاؤ،مگر تمہیں رب کا یقین رہے،تم میں فلاح کا عمل زندہ رہے،تم میں کامیابی کی تڑپ کے ساتھ زندگی کا عنصر زندہ رہے۔

اگر خالی کامیابی کی طرف بھاگو گے تو پھر ذیزی کٹر ( وہ تباہ کن بم جو امریکہ نے افغانستان میں استعمال کیے،جو ایٹم بم کے بعد دنیا کے خطرناک ترین بم ہیں) بھی بنا ڈالو گے، تو خوش رہو گے،کیونکہ تمہارے اندر فلاح مرچکی ہوگی، صرف کامیابی زندہ رہے گی۔ ہٹلر نے بھی گریٹر جرمنی کا خواب صرف اور صرف کامیابی کے پیمانے میں ناپ کر دیکھا تھا، اگر وہ اس میں تھوڑا فلاح کا عنصر ڈال دیتا تو اتنی دنیا راکھ کا ڈھیر نہ بنتی۔

بابا جی کی باتوں میں مجھے سکول کا وہ پہلا دن یاد آنے لگا ،جب ابا جی مجھے بھاری بستہ لٹکائے اپنے ویسپا پر سکول چھوڑ کرآئے اور میں مڑ مڑ کر انہیں آوازیں لگا رہا تھا ،پاپا جلدی آنا۔ 
میں ایک ریس میں داخل نہیں ہونا چاہتا تھا، مگر داخل ہوگیا، یہاں سے من کی آلودگی کی تھری ڈی دنیا کا آغاز ہوا، مجھے دنیا بتائی گئی، دنیا پڑھائی گئی، دنیا میں رہنے کے طریقے بتائے گئے، کامیابی،ریس ، مقابلہ ،بس یہی کچھ۔

مجھے بتایا گیا، جیتنا کیسے ہے؟ دنیا میں آگے کیسے جانا ہے، بڑا آدمی کیسے بننا ہے؟ مجھے یہ تو کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ کبھی مجھے کسی سے عشق ہوجائے اور وہ لاحاصل ہو تو اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے،اپنے اوسان کیسے بحال رکھنے ہیں؟ مجھے کینسر ہوجائے تو مجھے اس بیماری کی شدت اور غم کو کیسے برداشت کرنا ہے یا پھر شاہین کی طرح فالج ہوجائے تو مجھے اپنا آپ کیسے سنبھالنا ہے؟ اس دنیا کی ریس میں کامیابی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اگر زندگی کو مقفل لگ جائے تو اپنا آپ کیسا کھوجنا ہے؟ 
جب آپ زندگی کو کامیابی سے علیحدہ کرلیتے ہیں تو آپ کامیابی کو پکڑ لیتے ہیں اور کامیابی آپ کو پکڑ لیتی ہے، دنیا ایسے کتنے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے کامیابی کے پیچھے بے پناہ پیسہ اکٹھا کیا اور بعد میں انہی کی گردنیں ناپی گئیں، وہ فلاح کے عمل سے باہر ہوگئے۔

کامیاب ہونا اور چیز ہے ، یہ بھی سچ ہے کہ کامیاب ہونے کے لیے تڑپ کی ضرورت ہوتی ہے ،جہد کی ضرورت ہوتی ہے،مگر اس سب میں اپنے آپ سے جڑے رہنا بھی تو ضروری ہے، وہی جوڑ آپ کو رب تک لے جائے،وہی جو آپ کی اصل حقیقت ہے۔ شاہین ، بستر پر بار بار بیوی بچوں کو بلا رہا تھا،اس کا آپریشن 6 گھنٹے کے اندر ہوگیا، خون کا لوتھڑا نکال دیا گیا اور وہ ٹھیک ہوگیا۔

دو دن بعد ہم شاہین سے ملے،وہ خوش تھا، فون پر لوگوں سے مبارک باد لے رہا تھا۔ ہم نے اس پر آنے والی وقت ِنزع کا نزول دیکھا تھا، وہ اب بھی آگے کی ٹریننگ کاسوچ رہا تھا۔ 
میں اس کے پاس بیٹھا، اس کا فون رکھا،اور اسے اس رات اس پر کیا گزری اس کے بارے میں سب بتانے لگا۔ شاہین اب بھی واپس اسی طرح کی زندگی چاہتا تھا،پانچ دن گندے ہاسٹل میں،سٹریس کی زندگی ،دو دن اندھا دھند خوشاب میں کلینک کی پریکٹس اور پھر واپسی،گاڑی میں کپڑے استری لٹکا کر،وہیں بدل کر وارڈ پہنچ جانا اور بس پھر کامیابی ہی کامیابی۔

شاہین گھر چلا گیا، شاید بارش والی کسی رات بادلوں کی گرج شاہین کے اندر فلاح داخل ہوگئی،پاپا جلدی آنا کی آواز اس کو سنائی دینے لگی، یا شاید اس نے د ل کے طاقچے کے دراز الٹے کردیے، اس نے کئی سال سکول کے بستے سے جسم میں اتاری من کی آلودگی کہیں دور پھینک دی۔
 وہ اہلیہ کے ساتھ عمرے پر گیا اور ایک رات اس کا مجھے میسج آیا کہ میں نے اپنے شہر کا ڈیچ ایچ کیو ہسپتال جوائن کرلیا ہے، اپنی پریکٹس،بیوی، بچوں کو ٹائم دے رہا ہوں،دو دن چھٹی کرتا ہوں ، روزانہ ورزش کرتا ہوں اور میں بہت خوش ہوں۔

شاہین نے کامیابی کی دوڑ میں زندگی پر لگا مقفل خود کھول دیا تھا۔ وہ مجھے 6 ماہ بعد ملا وہ خوش تھا، داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہیں بچا تھا، صحت بھی اچھی تھی اور چہرے پر صبح پھولوں پر پڑتی شبنم جیسی تازگی تھی۔ دنیا اور کامیابی سے اپنا آپ اور فلاح نکل جائے تو من آلودہ ہونے لگتا ہے۔ یہ جملہ آج مجھے میرے دوست قاسم علی شاہ نے میری داڑھی کے کئی سفید بال دیکھ کر بولا۔

شاہ صاحب معروف موٹیویشنل سپیکر بن کر کئی لوگوں کی زندگی میں وہی کام کررہے ہیں جو میں نے اس رات شاہین کے لیے کیا۔ میں آج پھر گھر کی اسی خاموش بالکونی پر گیا، اسلام آباد کی رومانوی شام تھی، شدید بارش ہورہی تھی، میرے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا، میں اس میں اپنی بڑھی شیو میں سفید بال گننے لگا۔ میرے سامنے بستہ کمر پر لٹکائے ایک بچہ سکول جاتے مڑ مڑ کر اپنے والد کو دیکھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا پاپا جلدی آنا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :