سمندر اور سکون

اتوار 29 دسمبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

اسلام آباد کی بارشیں، انہی بارشوں کے رومانس میں محو رقص صبح اور اسی میں ڈھلتی شامیں ، اور ہر طرف مکمل خاموشی، یہ وہ منظر ہے جو کسی بھی دل کو پہاڑوں کی اس روشنی کی جھلک دکھا دے جو افق سے نکلتی ہے، سب ایسے منظر،ایسی زندگی کا خواب دیکھتے ہیں، مگر کیا یہ سب سراب ہے؟ نئے پاکستان میں گیس کا بل چالیس ہزار بھرنے کے بعد، گیزر کا تھرما سٹیٹ ٹھیک کیا تو ٹھنڈے پانی نے ایسی ہی ایک سہانی ٹھٹھرتی صبح میں استقبال کیا۔

یہ جڑواں شہر کہلانے والے باسیوں کی زندگی کی صبح کا آغازہے۔ سٹریس ، ٹینشن اور اذیت سے بھری۔ آج پھر بارش، دھند اور شدید سردی۔ میرے سامنے گاڑی کی ونڈ سکرین پر بارش کی بوندیں پڑ رہی تھیں، پیچھے ایک ایمبولینس تھی، جس کا سائرن دماغ ماؤف کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ بری طرح پھنس کر کھڑی ہوئی تھیں اور بیچ و بیچ موٹر سائیکل سوار ہر فکر سے آزاد انہی گاڑیوں پر لگ لگا کر اپنی نشانیاں چھوڑتے جارہے تھے۔

ہر منٹ بعد گھڑی پر نظر اور پھر وہی ذہنی کوفت ۔ یہ ہجوم کہاں سے اٹھ آیا تھا؟ یہ روز کا ہجوم۔ گاڑی میں بیٹھا وحشت کا مارا چہرے پڑھنے کی جسارت کرنے لگا، سب افراتفری کا عالم تھا،ہر کسی کو بس اپنی پڑی تھی۔ایسی نفسا نفسی میں کوئی مرے یا جئے ،یہ سب کسی دوڑ میں تھے۔ ایسے میں بارش کا رومانس،اس شہر کی پروین شاکر کو کہیں دفن کرگیا، اور منٹو کے چند تلخ جملے یاد آنے لگے کہ ’ خالی پیٹ کا مذہب صرف روٹی ہوتا ہے‘۔

بارش تیز ہوئی اور گاڑی کی چھت پر پڑنے والا ہر قطرہ ایسی آواز پیدا کرنے لگا کہ وہ سیدھا دماغ میں پیوست ہونے لگا،اوپر سے ایمبولینس کا سائرن، ہر طرف وحشت زدہ چہرے لیے لوگ، یہ سب پاگل کرنے کو کافی تھا۔ آخر یہ سب کیا ہے؟راقم القلم کا تعلق ملتان سے ہے، اعلی تعلیم اور ٹریننگ کی خاطر اسلام آبادشہر کا رخ کیا اور اس بات کو چھ سال ہوگئے۔اس عرصے میں کئی بار ملتان آیا، مگر زندگی کی نفسا نفسی کا عالم ایسا تھا کہ کبھی اس سکون کو محسوس ہی نہیں کیا،جو جنم بھومی کی کوک میں ملتا تھا۔

والدین ملتان میں تھے اور یہ کشش شہر میں بار بار لانے کے لیے کافی تھی۔ میں نے کئی بار اسلام آباد کو ملتان سے ملانے کی کوشش کی،ہر بار وسائل کی کمی، جہالت اور لوگوں کی بے حسی نے آڑے ہاتھوں لیا، ہر بار احساس ہوا کہ شاید میں کسی بڑی غلطی پر ہوں اور ہر بار ہی بڑے شہر کی نفسا نفسی میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کی۔ہم چھوٹے شہروں کے باسیوں کے لیے یہ بڑے شہر، ان سمندروں کی لہروں کی طرح ہوتے ہیں، جو آپ کو ڈوبنے سے پہلے اچھال کر باہر پھینکتی ہیں۔

اگر آپ کو ڈوبنے کا شوق زیادہ ہو،تو ان سمندروں کا کھارا پانی آپ کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کرتا ،یہ آپ کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور آپ کا اندر مار کر آپ کو ایک ہجوم میں داخل کردیتا ہے، آپ کو بڑے بڑے ٹریفک جام برے نہیں لگتے،آپ کو ہجوم برے نہیں لگتے ،آپ کو لوگوں کی بے حسی بری نہیں لگتی ،آپ کو ہر وقت کے ذہنی تناؤ کی عادت ہوجاتی ہے،مہنگائی کی عادت ہوجاتی ہے،آپ اس دوڑ میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ آپ اپنی اصل کھونے لگتے ہیں،آپ کو اپنا شہر حقیر لگنے لگتا ہے،اپنے شہر کے لوگ چھوٹے لگنے لگ جاتے ہیں او راس بدترین کیفیت کی حقیقت آپ پر تب آشکار ہوتی ہے،جب ان سمندروں کا کھارا پانی،آپ کو مارنے کے بعد،آپ سے آپ کا اپنا آپ چھیننے کے بعد،آپ کو پھر اچھال کر باہر پھینکنے کی کوشش کرتا ہے،اب کی بار آپ کی لڑائی لہروں سے نہیں ہوتی،پورے سمندر سے ہوتی ہے ،اب کی بار آپ طاقتور تیراک نہیں،لاش ہوتے ہیں۔

کئی بار میں نے اسلام آباد کے خمار میں حقیقی پروین شاکر کو ڈھونڈنے کی کوشش کی،مجھے دھویں،دھول اور نفسانفسی کے سواکچھ نہیں ملا، کئی بار میں نے ملتان میں اپنے گھر کے پرسکون دالان کو ،اپنے یہاں بڑے شہر کے گھر میں تلاش کرنے کی کوشش کی، مجھے وہ سکون نہیں ملا۔ میں نے بڑا ڈاکٹر بننے کے چکر میں،اپنے اندر کا چھوٹا انسان کھو دیا،اور شاید یہ کہانی بڑے شہروں میں آئے ہر اس چھوٹے شہر کے باسی کی تھی،جو سمندر کی پرکشش لہروں کو دیکھ کر،پرسکون ندیوں سے یہاں کود تو پڑتا ہے،مگر اس کو اپنی منزل کا تعین نہیں ہوتا،یا ہوتا بھی ہے، تو اس کی طاقت اس ہجوم میں کہیں لاش ہونے لگتی ہے،وہ لاش جسے وقت مسخ کردیتا ہے اور اس سے آنے والی بو کا احساس بھی صرف اسی انسان کو ہوتا ہے اور وقت آنے پر ہوتا ہے۔

یہ ساری جہد اس کے بیوی بچوں کے نزدیک،کامیابی،اچھا مستقبل اور ترقی ہوتی ہے،مگر اس کی لڑائی اپنے اندر کے ایک کھوکھلے انسان سے ہوتی ہے کہ جسے ختم کرنے وہ یہاں آتا ہے اور خود ختم ہوجاتا ہے۔ ترقی کرنے کے لیے بڑے شہروں کا رخ ضروری ہے؟ اس کا جواب کئی راتوں میں کالے آسمان کو تکتے میں نے ڈھونڈنے کی کوشش کی،مگر ان شہروں کے تو آسمان بھی کنارہ نہیں رکھتے۔

مگر یہ جواب مجھے ملتان میرے گھر کے دالان نے ضرور دیا۔ سمندر نے ایک بار پھر اچھالا، اہلیہ کا تعلق اسلام آباد سے ہے،وہ ان کیفیات کو سمجھنے جاننے سے قاصر ہے، مگر میرے اندر ایسا کچھ تھا،جس کو جواب چاہیے تھا۔ مجھے بڑے شہر سے گھٹن ہونے لگی تھی، اندر کی مسخ شدہ لاش کا تعفن مجھے کھانے لگا تھا، اور یہ بو بھی صرف میں محسوس کرسکتا ہے۔ مجھے جواب ملا،کالے آسمان سے ٹوٹے کسی تارے کی سرگوشی میں ملا،جنم بھومی کی کوک میں ملا۔

ترقی کے لیے بڑے شہروں نہیں،بڑے ملکوں کا رخ بھی ضروری ہے۔ یہ سب مذہب بھی کہتا ہے۔ مگر اس کے لیے آپ کو ان کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ آپ تعلیم کے لیے چین جاؤ،تو چینی نہ ہوجاؤ،بس اتنا سا فرق تھا۔آپ بڑے شہروں میں پردیسی بنو گے،وہ آپ کی ناؤ کو تیرنے کی اجازت دیتے رہیں گے،جس دن آپ نے ان میں اپنی اصل بھول کر غوطہ لگایا،آپ وہیں غرق ہوگئے۔آپ کا سکون،ڈوب گیا،آپ خود ڈوب گئے۔

اگر یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو،کہ جہاں وسائل،تعلیم اور روزگار کینسر کردیے جائیں تو تصویر اور زیادہ بھیانک ہوتی ہے۔ یہ تصویر کسی ایک مصور کی ہوتی ہے،جو پینٹنگ کی تشکیل میں رنگوں کا دھیان بھول جاتا ہے، کہیں رنگ بہت گہرے اور کہیں تصویر سفید کورا کاغذ ۔ اچھے سکول،کالج،یونیورسٹیاں،روزگار،رشتے،سٹیٹس،سیاست،بیوروکرسی ہرچیز کو تین چار شہروں کی باندی بنا کر،باقی شہروں کواچھوت کردیا جاتا ہے۔

وہاں محرومیاں پیدا کی جاتی ہیں اور انہیں وجہ سے پھر ایک طرف ایسے ہجوم ہوتے ہیں کہ ایمبولینس کے سائرن کئی گھنٹے جام سڑکوں پر سر میں گولیاں برسانے لگتے ہیں کہیں آپ کو سڑکوں پر بھاگتی انہی ایمبولینسز کے لیے کوسوں دور ہسپتال دکھائی نہیں دیتے۔ کبھی کبھی رات کے اندھیروں میں سمندر کی ان لہروں کو دیکھوں،تو ان میں کودنے کے فیصلے کو صحیح سمجھنے لگتا ہوں، اسی نے بیگم دی،اچھی تعلیم دی،ترقی دی،آگے بڑھنے کی جہد دی،اپنے چھوٹے شہر میں عزت دی، مگر جب ان میں سکون تلاش کرتا ہوں،تو انہی لہروں سے وحشت ہونے لگتی ہے،ان میں لاشیں تیرتی دکھائی دیتی ہیں،سکون ختم ہوجاتا ہے اور ایک جنگ دکھائی دیتی ہے،زندگی کی جنگ۔

شہروں میں اگر وسائل کی تقسیم میں انصاف ہو،تو مصور کی بنائی تصویر میں رنگ چار سو خوشبو بکھیرتے نظر آئیں، مجھے میرے گھر کے دالان میں سکون بھی ملے اور میرے شہر میں ترقی بھی۔ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہی کیا جاتا ہے،کم از کم جہد ضرور کی جاتی اور نہیں تو وسائل کو کینسر نہیں ہونے دیا جاتا ۔اپنے شہر کی بارشوں کا رومانس ،اسلام آباد کی پروین شاکر اور رومانی بارشوں سے زیادہ سکون دیتا ہے۔

اس بات کا احساس تب ہوتا ہے،جب آپ سکون کی تلاش میں ہجوم کو پیچھے چھوڑنے لگتے ہیں،آپ اپنے لیے جینے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ سمندر وں کے کھارے پانیوں میں اچھال بھی دیے جائیں،تو بھی آپ لاش نہیں،امر ہونے کی سعی کرتے ہیں۔ ایسے میں آپ کو اپنے اندر سے تعفن نہیں،خوشبو آتی ہے،اور یہی خوشبو زندگی ہے۔ سمندر اور سکون کی زندگی میں بس اسی خوشبو کا فرق ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :