کورونا وائرس اور پاکستان

پیر 2 مارچ 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

1918ء میں جنگ عظیم اول ، ایک خطرناک وائرس کے پھیلنے کا موجب ثابت ہوئی۔ یہ موجودہ کورونا وائرس جیسا ہی تھا ،جو تاریخ کی بدترین وبائی بیماری کی صورت اختیار کرگیا۔ یہ اس قدر خطرناک تھا کہ دنیا بھر میں چار سے پانچ کڑوڑ افراد اس وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ۔ یہ H1N1 انفلیوئنزا وائرس کا دنیا میں پہلا بدترین حملہ تھا،جسے Spanish Flu کا نام دیا گیا۔اس قدر تباہی مچانے کے بعد وائرس H1N1 خاموش ہوگیا اور پھر ایسا حملہ دوبارہ Swine Flu کی شکل میں 2009ء میں ہوا۔

Spanish Flu سے اس وقت دنیا کی 27 فیصد آبادی متاثر ہوئی تھی، یعنی تقریبا پچاس کروڑ افراد اور مرنے والوں کی تعداد ان میں چار سے پانچ کروڑ تھی،جو کہ ایک اندازے کے مطابق دس کڑوڑ سے تجاوز کر گئی تھی۔
 2009ء میں جب اسی وائرس نے طاقت کے ساتھ سوائن فلو کی شکل میں دوبارہ حملہ کیا تو یہ زیادہ ہلاکتوں کا باعث نہ بن سکا۔

(جاری ہے)

دنیا اس وقت اس سٹرین H1N1/09 کی دوائی اوسلٹاماور کے استعمال سے بھی واقف تھی اور اس کی علامات سے بچاؤ کے لیے اسپیرین کا استعمال بھی جان چکی تھی، دنیا کو یہ بھی معلوم تھا کہ اگر یہ پھیلتا گیا تو کس طرح یہ Spanish Flu کی شکل اختیار کرلے گا اور آدھی دنیا کھا جائے گا، چنانچہ انہوں نے اس وائرس کو روک لیا ،لوگوں کی آمدورفت محدود کردی گئی اور وائرس پھیلنے سے رک گیا۔

 چین کے شہر وہان کی گوشت کی منڈیوں سے پھیلنے والا وائرس COVID-19 ، یعنی کورونا وائرس 2019، 1918ء کے H1N1 کی طرح دنیا کے لیے بالکل نیا ہونے کے ساتھ ساتھ شدید مہلک اور خطرناک ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا اس کے لیے تیار نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ،1918ء کی جنگی کیفیت میں ہے اور عالمی ادارہ صحت کی بہت زیادہ کوششوں کے باوجود ،اس وائرس کے پھیلاؤ کے روکنے میں کسی طور ناکامی کا شکار ہے۔

یہ وائرس چین کے شہر وہان میں پھیلا اورجب تک اس کے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوئے تب تک اس کے متاثرہ افراد دیگر ملکوں تک سفر کرچکے تھے۔ یہ ایک ایسے شہر میں پھیلا جو ایک بڑا تجارتی اور تعلیمی مرکز تھا،سو یہاں سے ہر طرح سے متاثرہ فرد اپنے ملک یا دیگر ملکوں میں پہنچا اور یوں یہ وائرس امریکہ اور یورپ میں بھی رپورٹ ہونے لگا۔
پاکستان نے چین کے ذریعے اس وائرس کے داخلے کو مکمل طور روک لیا اور یہ پاکستانی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے، ہنگامی سطح پر الرٹ جاری کیے گئے، میڈیا کا کردار اس میں بہت زیادہ مثبت رہا۔

پاکستان اس وائرس کے لیے مکمل طور پر تیار تھا۔ ان سب ہنگامی تدابیر کے باوجود دنیا بھر میں اب تک رپورٹ ہوئے 82,767 کیسز میں سے دو پاکستان میں بھی اسی ہفتے رپورٹ ہوگئے اور یہ سب ایک پڑوسی ملک کی شدید غفلت کی وجہ سے ہوا،جو اگر عالمی ادارہ صحت کی ہدایات پر عمل کرتا تو نہ صرف خود اس وائرس سے محفوظ رہتا جبکہ پاکستان میں بھی اس کے کیسز رپورٹ نہ ہوتے۔

ایران میں کورونا وائرس وبائی طور پر پھیلنے لگا،تو ایرانی حکومت اس خبر کو چھپانے میں لگ گئی، یہ کسی جنگی کیفیت کے طور پر کیا گیا یاں پھر اس کے پیچھے کوئی اور وجہ تھی ،یہ آنے والا وقت بتائے گا، مگر اس قسم کی بین الاقوامی غفلت پاکستان کے لیے وبالِ جان بن گئی اور ایران کے زائرین کے ذریعے یہ وائرس پاکستان پہنچ گیا۔ایران نے شدید بین الاقوامی دباؤ پر اب تک اس وائرس سے پانچ ہلاکتیں اور اٹھائیس کیس رپورٹس نشر کی ہیں، جبکہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

پاکستان میں پہلا کیس کراچی میں رپورٹ ہوا، مریض نے ایران کا سفر کیا تھا،وہیں اس کی حالت خراب ہوئی اور یہ کراچی آگیا،جہاں اس کی حالت بگڑنے پر اس کو ایک نجی ہسپتال لایا گیا اوروہاں اس میں COVID-19 کی تشخیص ہوگئی۔دوسرا کیس اسلام آباد میں رپورٹ ہوا، اس شخص نے بھی حالیہ ایران کا دورہ کیا ، حالت خراب ہوئی تو اسلام آباد آگیا،جہاں اس کی ایک نرس رشتہ دار ہسپتال لے آئی اور اس میں بھی COVID-19 پازیٹیو آگیا۔

گو یہ دونوں مریض خطرے سے باہر ہیں، مگر یہ زائرین کے جن گروپس کے ساتھ واپس پہنچے ہیں،ان میں یہ وائرس موجود ہے،اور اگر ان میں یہ وائرس موجود ہے تو یہ کتنے اور لوگوں میں یہ وائرس پھیلائیں گے؟ اس سوال کا جواب ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔یقینا پاکستان میں کورونا وائس آنے والے وقت میں ہلاکتوں کا باعث بن سکتا ہے اور اگر یہ وائرس مزید روکا نہ جاسکا تو اس سے پاکستانیوں کو حج و عمرہ کے ساتھ ساتھ کسی بھی ملک کے ویزہ کے حصول میں بھی بدترین پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 چین میں فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ، انسٹا، یہاں تک کہ گوگل تک پر پابندی ہے، مگر چین نے اپنی بین الاقوامی اخلاقی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے چھ کروڑ آبادی والے شہر وہان کو نہ صرف وبائی بیماری کے لیے خطرناک قرار دیا،بلکہ اس کو ایک قسم کا جیل بنا دیا۔وہاں موجود افراد کو کسی طور شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی، ان کو وہیں ہر طرح کی سہولت دی گئی، پانچ سو پاکستانی طلباو طالبات جو وہان میں موجود تھے،وہ بھی باہر نہیں نکل پائے اور یہ سب عالمی ادارہ صحت کے قوانین کے عین مطابق تھا ۔

ایسی ہی ہمارے دین کی بھی تعلیم ہے کہ جب تم کسی ایسی جگہ کا علم رکھو جہاں وبائی مرض پھوٹ پڑے تو وہاں مت جاؤ اور اگر وہاں موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ چین کی یہی بہترین کاوشCOVID-19 کو Spanish Flu جیسی صورتحال سے روکتی رہی۔
 چین نے دنیا کو اس مرض کی مکمل آگاہی دی ، مگر ایر ان نے ایسا نہیں کیا اور پاکستان جیسے ملک کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیا۔

پاکستان اب بھی عالمی ادارہ صحت کے قوانین کی شدید پابندی کررہا ہے ،مگر یہ وائرس روکنے کے لیے بڑی اور کم شرح خواندگی و غربت رکھنے والی آبادی والے ملک میں مزید ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ایسے میں اولین ترجیح ایران بارڈر کو مکمل سیل کرنے کے ساتھ ساتھ ،ہر قسم کے بین الاقوامی سفر پر پابندی اور سخت ترین ائیر پورٹ سیکیورٹی سکریننگ جیسے اقدامات کرنا ہوں گے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ وائرس اس سال حج کو بھی کسی طور متاثر کرے گا، جب ایران،عراق، پاکستان ،بھارت کے مسلمانوں کو سخت ترین سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان میں عمومی طور پر کیسز رپورٹ ہونے کے بعد Panic کی سی صورتحال ہے، لوگ شدید خوف اور اضطراب کا شکار ہیں۔ بطور ڈاکٹر روزانہ کئی ایسے میسج موصول کرتا ہوں جب لوگ عام نزلہ زکام کو کورونا سمجھ کر شدید پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہ پریشانی بالکل جائز اور حقیقی ہے اور کورونا کے پاکستان آنے کے بعد اب ایسی علامات کی صورت میں ہسپتال سے رجوع بھی ضروری ہے۔ مگر ایسے میں سب سے اہم آپ کی گزشتہ دنوں کی ہسٹری ہے،اگر آپ خود ایران،چین یا کسی بھی بیرون ملک سفر پر گئے ہیں یا آپ کا تعلق کسی ایسے فرد سے رہا ہے جس نے ایسا کوئی سفر کیا ہے تو نزلہ،کھانسی،زکام،شدید سر درد،بخار اور متلی و قے کی صورت میں آپ کو COVID-19 کی سکریننگ کرانا ہوگی۔

یہ وائرس سو میں سے دو سے چار افراد کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے ،مگر یہ دو یا چار آپ بھی ہوسکتے ہیں۔ ماسک کا استعمال،ہاتھ منہ دھونا، غیر ضروری مصافحہ نہ کرنا وغیرہ آپ کو اس وائرس سے بچا سکتے ہیں، مگر یہ سب وہان میں ممکن ہے،پاکستان میں ان تدابیر پر عمل تقریبا ناممکن ہے، کیونکہ کوئی ایک دو کیس رپورٹ ہونے کے بعد اس قدر شدید احتیاط کرتا کوئی کیسے دکھائی دے سکتا ہے؟ 
کیسز رپورٹ ہونے کے بعد کراچی اور پھر ملک بھر میں سرجیکل ماسک یا این 60 ماسک کا ساٹھ اسی روپے سے چار پانچ سو تک مہنگا ہوجانا ،اپنے اندر کئی کہانیوں کو جنم دے رہا ہے،یا پھر قومی اخلاقیات کی یہ تاریخ بہت پرانی ہے ۔

اس سب پر بھی ایک الگ گونج درکار ہے۔ فی الحال کورونا وائرس پاکستان آچکا ہے اور ہمیں اس کو روکنا ہے اور اس کے خلاف ہماری پہلی جیت اخلاقی ہوگی،ہمیں عالمی ادارہ صحت کے قوانین کی اسی طرح پابندی کرنی ہوگی،جیسی چین نے کی،اگر ہم نے اس معاملے میں ایران بننے کی کوشش کی تو ہلاکتیں ہمارے بس سے باہر ہوں گی اور یہ سلسلے پھیلتے چلے جائیں گے اور دنیا صرف آپ کی اتنی مدد کرے گی کہ آپ کو تنہا کردے۔یہ آپ کی جنگ ہے ،آپ کو خود لڑنی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :