
کورونا وائرس اور بڑی تباہی کی تیاری
پیر 16 مارچ 2020

ڈاکٹر عفان قیصر
(جاری ہے)
1978ء تک حکومت تھوڑی سختی کرتی آئی،مگر جب قحط تھمنے میں نہ آیا تو سرکار نے مویشی پالنے کو نجکاری انڈسٹری کا درجہ دے دیا،اس سے یہ ہوا کہ مویشی اور مرغی ،انڈے وغیرہ بڑے تاجروں کے ہاتھ چلے گئے،ان کی پیداوار بہت بڑھ گئی اور چھوٹا تاجر بھوکا مرنے لگا۔
چھوٹے تاجر نے یہاں وائلڈ لائف یعنی جنگلی جانوروں کو گوشت کی صورت میں بطور خوراک منڈیوں میں بیچنے کے لیے متعارف کرایا۔یہ سلسلہ شروع کچھوؤں ،سانپوں سے ہوا مگر پھر یہ پھیلتا چمکادڑوں، مور خور اور ہر قسم کی جنگلی حیات تک جاپہنچا جن میں لومڑیاں،شیر،چیتے،بھیڑیے ،ہر طرح کا سمندری جانور شامل تھا۔ سرکار اس پر خاموش رہی اور بعد میں اس سارے عمل کو قانونی حیثیت دے دی اور سب کھانے پینے کی اجازت دے دی۔ یہ ملین ڈالر انڈسٹری تھی۔کیونکہ اس سے صرف خوراک نہیں جڑی تھی،اس سے چمڑے کا کاروبار بھی منسلک تھا ،سو مگر مچھ سمیت اعلی نسل کی بلیاں کتے بھی اس میں شامل ہوگئے اور یہ سب ایکسپورٹ ہونے لگا۔ ادھر قحط ختم ہوا ،ادھر چین میں پیسہ آنے لگا،سرکار کو اور کیا چاہیے تھا۔ایسے میں وہ جانور جو دنیا سے ناپید ہونے کے قریب تھے،سرکار نے ان کو بھی اس منڈیوں میں لانے پر چپ اپنائے رکھی اور یوں یہ انڈسٹری اور بڑھ گئی اور یوں چین میں بدترین WET ANIMAL MARKETS یعنی گیلی جانوروں کی منڈیاں متعارف ہوئیں،جو بدترین ذبح خانے تھے،جہاں ہر قسم کا جانور،زندہ مردہ بدترین طریقے سے رکھا اور بیچا جاتا تھا۔ایسے میں ہر طرح کے جانور تنگ پنجروں میں اوپر نیچے کرکے رکھے جاتے اور یوں اوپر سے شروع ہوتا زخمی جانور کا پیشاب،پیپ،خون،رطوبت سب نیچے جانور کے ساتھ ملتا اور یوں کافی جانوروں کا یہ سب نیچے والے پنجرے تک پہنچ کر جراثیم کی ایک ایسی اماج گاہ ہوتا کہ جہاں کچھ بھی پیدا ہوسکتا تھا۔ 2002ء میں ایسا پہلی بار ہوا جب چین کے شہر Hangzhou کی ایسی ہی منڈی میں پہلے کورونا وائرس کا جنم ہوا،جسے SARS-Cov کہتے ہیں۔ یہ چمکادڑوں سے بلیوں اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا،یہ 70 ملکوں میں پھیلا اور 788 انسانوں کی جان لینے کے بعد،ختم ہوگیا۔ یہ کیسے ختم ہوا؟ یہ سب حیران کن ہے، ایک تحقیق یہ ہے کہ یہ زیادہ درجہ حرارت برداشت نہ کرسکا اور ایک خاص درجہ حرارت پر اس کی mutated جنس ختم ہوگئی۔ ایسا ہی وائرس دوسری بار2012ء میں سعودی عرب میں دریافت ہوا جہاں یہ چمکادڑوں سے اونٹوں میں اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا ،یہ شاید 2002ء کے SARS-Cov کی ہی قسم تھی،جو بغیر زیادہ نقصان کے غائب ہوگئی۔ چین اس سب کے باجود اپنی ملین ڈالر گوشت اور چمڑے کی انڈسٹری کو بند کرنے یا قانون کے عمل سے گزارنے کو راضی نہیں تھا۔ یہ گیلی جنگلی جانوروں کی منڈیاں اس قدر ترقی کرگئیں کہ یہاں مختلف جانوروں کے گوشت کو جنسی قوت کا لیبل لگا کر لوکل اور انٹرنیشنل مارکیٹ کو مزید اپنی طرف کھینچا گیا ،یہاں سے باڈی بنانے،جسم کو توانا کرنے اور جنسی طاقت اور لذت کے جھوٹے لیبل لگا کر جانور بیچے جانے لگا اور ان سے بنی اشیاء کو پوری دنیا میں سپلائی کیا جانے لگا۔ ایسے میں 2019 ء نومبر دسمبر میں چین کے شہر وہان کی ایسی ہی منڈی میں کورونا وائرس اپنی بدترین شکل لیے نمودار ہوا، یہ چمکادڑ سے مور خور یعنی چیونٹیاں کھانے والے لمبی تھوتھنی والے ایک جانور میں منتقل ہوا اور اس سے پھر انسانوں میں منتقل ہوگیا ۔ یہ اپنی نوعیت کا خطرناک ترین وائرس تھا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورا وہان منجمند کردیا اور آج پوری دنیا بند ہے۔ اربوں روپے کی تجارت تباہ ہوگئی ہے، ٹورزم ختم ہوگیا ہے اور لوگ خوف کا شکار ہیں۔ یہ سب فلموں میں دیکھا تھا اور آج یہ سب حقیقی دنیا کا حصہ ہے۔اس وائرس کا نام 22 فروری 2020ء کو SARS-Cov 2 رکھا گیا ہے اور اس کی بیماری کا نام COVID-19 ہے۔ یعنی کورونا وائرس ڈیزیز۔ یہ کوئی نیا وائرس نہیں ہے۔ یہ ہم میں سے ہر انسان میں کسی نہ کسی سٹیج میں موجود ہے ،مگر اس کو ہم ہیومن یعنی انسانی کورونا وائرس کہہ سکتے ہیں، ہر سال ہمیں نزلہ کھانسی زکام کرتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے،یہ صرف گلے وغیرہ میں نشونما پاتا ہے جہاں کا درجہ حرارت 34-35 ڈگر ی ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کا انفیکشن نہیں کرتا۔ Sars-Cov2 جانوروں کا کورونا وائرس کا جو بدترین mutated شکل میں نشونما پاکر انسانوں میں منتقل ہوا ہے یہ 37-38 ڈگری تک زندہ رہتا ہے،یعنی کہ یہ انسان کے کسی بھی اعضاء میں نشونما پاسکتا ہے،کبھی بھی پاسکتا ہے اور بدترین نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ یہ ایک میٹر تک ہوا کے خلیوں پر بیٹھ کر ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوجاتا ہے،12 گھنٹے تک کسی بھی سطح پر زندہ رہ سکتا ہے اور یوں کسی کے ہاتھ چھونے، یہاں تک کے سامان سے بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ اس نے یہ سب خصوصیات وہان کی اسی گیلی منڈی سے لی ہیں جہاں یہ پیدا ہوا ہے اور صرف اس کی 37 ڈگری پر زندہ رہنے کی خصوصیت آج اس کے اس قدر پھیلاؤ،گرم موسم میں نہ مرنے اور بدترین اموات کی وجہ ہے۔ یہ بزرگوں، بچوں یا کم قوت مدافیت والے لوگوں کے جسم میں منتقل ہوجائے تو یہ آرام سے پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے،جہاں یہ خون کے خلیوں کے ساتھ مل کر سانس کے عمل کو متاثر کردیتا ہے،جیسے کسی کے منہ پر تکیہ رکھ دیا جائے،سانس مکمل طور پر رک جاتی ہے اور انسان اذیت ناک موت کا شکار ہوکر مر جاتا ہے یا پھر پورے جسم میں اس کا زہر پھیل جاتا ہے جسے Sepsis کہتے ہیں۔ یہ وائرس انتہائی خطرناک ہے اور اسی لیے پوری دنیا اس کے بدترین شکنجے میں ہے۔اس کے علاج کی دریافت کے بارے میں تمام باتیں ابھی سب تحقیق میں ہیں اور کوئی بھی دوائی WHO کی طرف سے اس کے علاج اور بچاؤ کے لیے مارکیٹ میں لانچ نہیں کی گئی۔ایسے میں تاریخ میں پہلی بار عمرے تک سے لوگوں کو روکا گیا ہے اور ہر طرف خوف کا سایہ ہے۔ بطور ڈاکٹر جو لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ کورونا وائرس صرف سوشل میڈیا کے خوف سے پھیلا ہے اور اس کی اصل حقیقت اتنی بھیانک نہیں تو ان کے لیے جواب یہی ہے کہ یہ وائرس وہان سے نکل کر 118 ملکوں میں پھیل چکا ہے،لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس سے متاثر ہیں،پانچ ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں اور پاکستان میں ایران کی طرف سے آئے زائرین کی وجہ سے 28 کیس رپورٹ ہوچکے ہیں ،تو یہ سب سوشل میڈیا کا خوف کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ کے بچوں کے سکول بند ہیں، بازاروں سے بنیادی ضرورت کی اشیاء ختم ہورہی ہیں،پوری دنیا ساکت ہوچکی ہے اور ہمیں کورونا سے کتنا ڈرنا چاہیے؟ ایک وقت تھا جب افریکہ جنگلی جانوروں انسانوں میں پھیلی ایڈز،کانگو سمیت ہر بیماری کی اماج گاہ تھا،آج یہ حیثیت چین کی ہے۔کورونا وائرس کا آخر کیا ہوگا یہ وقت بتائے گا، مگر یہ وائرس کسی طور قابو میں آ بھی گیا تب بھی یاجوج ماجوج کی قوم کا پیٹ بھرنے کے لیے آپ کو گیلی منڈیوں پر انحصار کرنا ہوگا اور جب تک چین میں ایسی گوشت کی منڈیاں رہیں گی ،کورونا وائرس کی کسی بھی ہولناک شکل کا وجود رہے گا۔ اگر دنیا نے ان کی ملین ڈالر انڈسٹری اپنی زندگی بچانے کے لیے بند کرابھی دی تو ان کو کھانے کو کیا دے گی؟ اور اگر یاجوج ماجوج یہ سب جانور اسی طرح کھاتے رہے تو کیا Sars-Cov3 پوری دنیا کا سانس منجمند کرنے کی تیاری کرے گا؟ اس پر پوری دنیا کو مل کر سوچنا ہوگا، یہ سب اللہ کا عذاب ہے ،جس کی وضاحت سائنس کرتی ہے اور یہی آج کی گونج ہے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر عفان قیصر کے کالمز
-
اس ملک کا ینگ ڈاکٹر
جمعرات 26 اگست 2021
-
خواجہ سراء کی سوچ، ایڈز اور ہم
پیر 16 اگست 2021
-
انٹرنیشنل میڈیا اور دنیا
جمعرات 29 جولائی 2021
-
شکریہ جناب گورنر پنجاب
پیر 8 فروری 2021
-
کورونا اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ٹیلی سروسز
اتوار 6 دسمبر 2020
-
خدائی سلسلے
اتوار 1 نومبر 2020
-
بیٹی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
کویڈ 19 اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی مثالی خدمات
جمعہ 18 ستمبر 2020
ڈاکٹر عفان قیصر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.