تاریخ،حقائق اور لاک ڈاؤن

پیر 27 اپریل 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسان وباؤں سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتا، 1346ء میں جب طاعون کی وباء پھیلی تو انسان کسی طور اس قابل نہیں تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کرسکے، نتیجے میں ایک چوتھائی دنیا صفح ہستی سے مٹ گئی۔اس کے بعد کئی وبائیں آتی رہیں،اور بہت بڑی تعداد میں انسان مرتے رہے۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ وبائیں دنیا میں کسی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے نازل کی گئی ہیں۔

وبائیں آتی ہیں، دنیا کے بگڑے توازن ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔ جب طاعون ایک چوتھائی دنیا ختم کرچکا تھا،تب دنیا پر جو انسان بچ گئے ،انہیں بعد میں بہتر خوراک میسر ہونا شروع ہوگئی۔غلاموں کی زندگی بہتر ہوگئی اور وہ جو روزگار نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے تھے،انہیں روزگار ملنے لگا۔ان تمام وباؤں کے پھیلاؤ میں انسان کہیں کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور کرتا رہا جس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

(جاری ہے)

1918ء کے سپینش فلو میں جب کینساس میں امریکی فوجی کیمپ میں یہ وباء پھوٹی تو امریکہ نے جنگ ِ عظیم اول پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے اسے کسی طور چھپایا،اور اس کیمپ سے فوجی پوری دنیا میں روانہ کردیے اور یہی وہ غلطی جس نے جنگ ِ عظیم میں کل امریکی فوجیوں سے دس گنا زیادہ امریکی فوجی ماردیے اور سپینش فلو بھی پوری دنیا کے پانچ کروڑ افراد کی جان لے گیا۔

ایسی ہی غلطی کورونا کے شروع میں ووہان شہر میں کی گئی، جب ایک ڈاکٹر کو کورونا رپورٹ کرنے پر چپ رہنے کا کہا گیا اور بعد میں حالات اس کے برعکس ہوگئے۔ لاک ڈاؤن کو موجودہ کورونا وائرس کی وباء میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔یہ جزوی یا مکمل کرفیو کس صورت میں کیا جائے،اس پر بھی بہت بحث ہوتی رہی،مگر نتیجہ آج بھی کسی کے پاس نہیں۔ پاکستان کو آگے کیا کرنا ہوگا،اس کے لیے ہمیں ڈینور کی تاریخ پڑھنا ہوگی۔

امریکی ریاست کولوریڈو کا دارلخلافہ ڈینور سپینش فلو 1918 ء کی تلخ حقیقت لیے ہے۔ اس حقیقت میں ہمارے لیے تاریخ کا سب سے بڑا سبق موجود ہے۔ سیانے کہتے ہیں ،فتح کا جشن، فتح کے ختم ہونے سے پہلے منانے والے،اکثر ہار جاتے ہیں۔ 1918ء میں جب پوری دنیا میں لوگ بری طرح کورونا کا شکار ہوکر مر رہے تھے،وہیں، ڈینور کا مئیر ولیم ،ڈینور کا سپینش فلو کی ہلاکت خیزی سے بچانے میں کامیاب ہوچکا تھا۔

چکا گو سے آنے والا ڈینور کی یونیورسٹی کا ایک طالب علم جب 27 ستمبر 1918 ء کو سپینش فلو سے ہلاک ہوا تو ڈینور میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ پورے امریکہ میں سپینش فلو پھیل رہا تھا،جبکہ ڈینور میں ایسے کیس نہ ہونے کے برابر تھے،بلکہ ختم ہورہے تھے۔ ایسے میں ڈینور میں جب سب نارمل تھا، تو تاجر برادری نے شور مچانا شروع کردیا کہ جب حالات کنٹرول میں ہیں ،تو ایسا کرفیو کیوں نافذ ہے؟ ایسا ہی شور چند کلیساؤں سے بھی تھا۔

ادھر ڈینور کے مئیر ولیم پر پریشر بڑھنے لگا ،ادھر پہلی جنگ ِ عظیم ختم ہوگئی۔اس وقت ڈینور کے ایک ہیلتھ آفیسر نے مئیر کو دباؤ میں آکر کوئی بھی غلط فیصلہ کرنے سے سختی سے منع کیا اور شہر کے باسیوں سے اپیل کی کہ وہ گھروں میں رہیں اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں سپینش فلو سے پھیلی بدترین ہلاکت خیزی کو اپنے گھروں میں دعوت نہ دیں۔ 11 نومبر 1918ء کو ڈینور شہر کے صحت عامہ کے مینیجر نے یہ اعلان کیا کہ ہم نے وباء پر قابو پالیا ہے۔

اس وقت جنگ عظیم اول کی فتح اور خاتمے کا جشن بھی منانے کا اہتمام کیا جارہا تھا۔ ڈینور شہر پانچ ہفتوں سے لاک ڈاؤن میں تھا۔ پورا شہر جشن میں امڈ آیا۔ تاجروں نے دکانیں کھول لیں۔ ڈینور کی زندگی نارمل ہوگئی۔ یہ وہ وقت تھا،جس کو تاریخ میں سپینش فلو کی دوسری لہر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ڈینور شہر میں تیزی سے سپینش فلو پھیلنے گا۔ لوگ مرنے لگے۔

ہر گھر سے لاشیں اٹھنے لگیں۔ تین سو ڈاکٹروں والے شہر میں آٹھ ہزار لوگ،صرف چند دنوں میں مر گئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ شہر میں لاشیں تھیں اور اٹھانے والے کوئی نہیں تھا، یوں صرف سپینش فلو کے مکمل خاتمے سے پہلے کا جشن سب برباد کرگیا۔ شہر کے مئیر نے نہ چاہتے ہوئے بھی لاک ڈاؤن دباؤ میں آکر ختم کردیا تھا،اور یہی غلطی پورا شہر کھا گئی۔

پاکستان میں رمضان شروع ہوچکا ہے۔ لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں شدید فرسٹیشن کا شکار ہیں، بے روزگاری،غربت اپنے عروج پر ہے ،ادھر سے لوگوں کو اب اکٹھا بھی ہونا ہے۔ایسے میں مزید لاک ڈاؤن ممکن نہیں،یا شاید جیسا لاک ڈاؤن پاکستان میں رہا ہے، ویسا اب ممکن نہیں۔ ہم نے لاک ڈاؤن کیا، مگر کرفیو نہیں لگایا، یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس آہستہ آہستہ پھیلتا رہا، نہ ختم ہوا اور نہ ہی تیزی سے پھیلا۔

مگر اب کیا ہوگا؟ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ اس کے جواب میں نے آخری تین ہفتے کے کچھ ڈیٹا کا تجزیہ کیا ۔ امریکہ میں پہلا کیس 21 جنوری کو رپورٹ ہوا، جبکہ پاکستان میں پہلا کیس 26 فروری کو رپورٹ ہوا۔ پاکستان امریکہ سے 36 دن پیچھے ہے۔ امریکہ میں ہزار کیس چالیس دن میں مکمل ہوئے،جبکہ پاکستان میں ایسا تیس دن میں ہوا۔ امریکہ میں چالیس دن میں 38 ہلاکتیں تھیں، جبکہ پاکستا ن میں ان کی تعداد چالیس تھیں۔

54 دن گزر جانے کے بعد امریکہ میں کیسز کی تعداد 4596 تھی اور ہلاکتیں 69 تھیں۔پاکستان میں 54 دن گزر جانے کے بعد کیسز کی تعداد 8348 تھی اور ہلاکتیں 168۔ امریکہ میں 57 دن گزرے تو ہلاکتیں 150 ہوگئیں اور کیسز 9032۔ میں نے جرمنی اور برطانیہ کا امریکہ سے موازنہ کیا، نتائج ایک ہی تھے۔پاکستان میں کیسز کی تعداد آج دس ہزار کے قریب ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھیں گے،یہ تعداد اس سے زیادہ ہوگی۔

رمضان میں تاجر برادری سڑکوں پر نکلے گی، مزدور طبقہ روٹی کے لیے نکلے گا اور پھر سے میل جول کے سلسلے شروع ہوں گے۔ ایسے میں ہمارا لاک ڈاؤن عملی طور پر ختم ہوجائے گا اور یہ وقت ہوگا،جب ہم جزوی لاک ڈاؤن ہی سہی، مگر کسی طور کامیابی کے عین قریب پہنچ کر، تاریخ کو دہرانے کی کوشش کریں گے ۔ یہ بظاہر تو ایک نارمل زندگی ہوگی، مگر اگر یہ سب ڈینور کی طرح، 180 کے زاویے پر پلٹ گیا،تو سب پلٹ جائے گا۔

دوسری طرف امریکہ کے ساتھ ملائے گئی Stats بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ پاکستان میں یقینا حالات اب تک کنٹرول میں رہے ہیں۔ کسی طور کورونا وائرس پر ہم نے قابو پایا ہے، مگر کیا لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ ایسا ہی چلے گا؟ اس پر میرا مشاہدہ اور تاریخ کی حقیقت جو پیش گوئی کررہی ہے،وہ کسی طور صحیح ثابت نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری آبادی اور ہمارا صحت کا نظام کسی طور ،ایسے کسی پھیلاؤ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

یہ ڈینور کے 300 ڈاکٹروں اور 8000 اموات سے کئی گنا زیادہ کی کہانی ہے۔ یہ یقینا ایک ایسا تجزیہ ہے،جو ان حالات میں ہم میں سے کسی کو قبول نہیں ، اور ہمیں مثبت بات کرنی ہے، مگر ہمیں ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے تاریخ اور حقائق دونوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔یہ درست ہے کہ پاکستان میں وائرس کا جو سٹرین موجود ہے ،وہ S سپائک کے نام سے جانا جاتا ہے،جو کم تباہ کن ہے۔

ہمارے لوگوں میں وقت مدافیت بہتر ہے،یہاں حالات بھی مغرب سے بہت بہتر ہیں، مگر کیا یہ سب ہمیں ڈینور کے اس جشن کی اجازت دینے کے لیے کافی ہے کہ جس کے بعد ہر سڑک پر سوگ تھا؟ بھوک،بیروزگاری،وحشت یقینا ڈینور کے مئیر کی طرح کوئی بڑا فیصلہ کروانے جارہی ہے، مگر اس کا جشن ،فتح حاصل ہونے سے پہلے کا جشن ہوگا،اور ایسی صورت میں ہار ، ہمارے اپنوں کی ہار ہے۔ ہم نے کورونا وائرس سے اصل جنگ اب کرنی ہے، آپ نے کیا فیصلہ کرنا ہے،یہ سب آپ کو حقائق اور تاریخ دیکھ کر کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :