تاریخ گواہ ہے کہ جرمنی دوسری جنگ ِ عظیم جیت رہا تھا۔ اڈولف ہٹلر کو ہر میدان میں فتح مل رہی تھی۔پھر اس نے روس پر حملے کی سنگین غلطی تھی۔ اس طرح انہوں نے سٹالن جیسے شاطر انسان کو اپنے قلعے میں داخل ہونے کی کھلی چھٹی دے دی، نتیجہ یہ نکلا کہ سٹالن نے اڈولف ہٹلر کے قابل ترین جرنل جرمن قوم کی نظروں میں گرانے شروع کردیے، قوم کا اعتماد ان پر سے اٹھتا گیا اور یوں جرنل بھی حونصلہ ہارتے گئے۔
جب برلن میں روسی فوج داخل ہورہی تھی اور ہٹلر خودکشی کررہا تھا،اس وقت بھی کئی جرنل ہٹلر سے نالاں تھے اور صرف بے اعتمادی اور بے یقینی پیدا کرکے سٹالن نے اتنی طاقتور فوج کو ہرا دیا۔ یہ صرف جنگی حکمت عملی تھی مگر اس کے اثرات بہت وسیع تھے ،آپ نے کسی بھی میدان میں کسی بھی قوم کو شکست دینی ہو،آپ اس میں پھوٹ ڈلوادو،ان میں بے یقینی پیدا کردو،ان میں بے اعتمادی کی فضاء قائم کردو،وہ اپنی فوج پر سے اعتبار کھو دیں اور یوں آپ یہ جنگ جیت جاؤ گے۔
(جاری ہے)
آج کی تاریخ تک پاکستان ہر محاذ پر کورونا جیسی بدترین وباء سے شکست کھا رہا ہے۔جبکہ جہاں سے یہ وباء آئی تھی،انہوں نے اسے ایک صوبے تو دور ایک شہر سے ہی باہر نہیں جانے دیا۔ پھر جن ملکوں پر اس کا بدترین حملہ ہوا تھا ،انہوں نے بھی کورونا کے خلاف جنگ جیت لی، اس جیت کے کئی اصول تھے۔ انہوں نے بروقت کورونا وائرس سے لڑنے کی حکمت عملی تیار کرلی،اس حکمت عملی پر کوئی طاقت ماسوائے ریاست کے اثر انداز نہیں تھی،اس حکمت عملی پر طاقت کے زور سے عمل کروایا گیا، عوام نے بھرپور ساتھ دیا ، کورونا وائرس کی آگاہی مہم چلائی گئی، معاشرے میں تعلیم عام کی گئی، سوائے ڈاکٹروں کے اس بیماری کے بارے میں کسی کو اس کے بارے میں کسی قسم کا تجزیہ دینے یا انفارمیشن دینے کی اجازت نہیں دی گئی، میڈیا کو محتاط کردیا گیا،لوگوں کو مکمل طور پر گھروں میں رہنے کا کہا گیا، ہیلتھ کیئر ورکرز پر نہ صرف اعتماد کیا گیا، بلکہ ان کی قربانیوں کو بھی سراہا گیا، مسلسل تھپکی نے ان کو سخت ترین حالات میں بھی وباء کے خلاف کام کرنے کے لیے حونصلہ دیے رکھا اور سب سے بڑھ کر سرکار،ہیلتھ کیئر ورکرز اور عوام کے درمیان بھرپور اعتماد کی فضاء کو قائم رکھا گیا،اس سے ایک تسلسل میں اتنی بڑی وباء کی تباہ کاریاں روک دی گئیں،لوگ بہت بڑی تباہی سے کسی طور محفوظ رہے،کسی قسم کی نفسا نفسی نہیں پھیلائی گئی، کوئی ذخیرہ اندوزی نہیں کی گئی، خوراک ملتی رہی،روزگار چلتا رہا، آن لائن سب نظام بحال رہے اور عوام نے مشکل وقت میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا۔
ہماری جنگ کورونا وائرس کے خلاف پوری دنیا سے مکمل مختلف رہی،یہ اس قدر مختلف تھی کہ کورونا وائرس کی وباء سے اب تک درجنوں شوز کرنے اور کئی کالم لکھنے کے باوجود میں ابھی تک اس کیDynamics اپنے ملک میں سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ ہمارا آغاز بہت شاندار تھا، میڈیا engage تھا، عوام بات سن رہی تھی۔ دو دو گھنٹے کی آذانیں ہورہی تھیں، لوگوں کے دلوں میں اللہ کا ڈر تھا،راشن بانٹے جارہے تھے، ماسک ،سینی ٹائیزر ہر طرح کی احتیاط کی جارہی تھی۔
اس معاملے میں ہمارے صحت کے نظام کی بھی تیاری بھرپور تھی، ڈاکٹروں کو سیلوٹ مارے جارہے تھے، عوام ڈاکٹروں کی بات سن رہی تھی۔ میڈیا بھی جہال سے زیادہ صرف مرض کی آگاہی دینے والوں کو ہی دعوت دے رہا تھا، سوشل میڈیا کا کردار بھی مثبت تھا۔ یہ سب ایسے تھا کہ جیسے رمضان کے چاند کا اعلان ہوتے ہی سب نئے نئے مومن بن گئے تھے۔ یہ پالیسی کورونا وائرس کے خلاف موثر تھی۔
لاک ڈاؤن اور پھر سمارٹ لاک ڈاؤن ،یہاں تک بھی حالات قابو میں تھے۔ مگر آہستہ آہستہ ہم اپنی پرانی قومی روش پر آنے شروع ہوگئے،کہانی تو سینی ٹائیزر اور ماسک نایاب اور بلیک ہونے سے شروع ہوئی اور پھر بڑھتے بڑھتے اس نوبت تک آگئی کہ خود کورونا وائرس کا شکار مریض اپنا پلازمہ آٹھ آٹھ لاکھ میں فروخت کرنے لگے۔ پچاس کیسز پر ہم مومن تھے اور آج ایک لاکھ سے زائد کیسز پر ہم نے ایک سو اسی کے زاویے پر اپنا سب بدل لیا ہے۔
ہمارے معاملات عید کے بعد مکمل طور پر خراب ہوگئے۔ آٹا ذخیرہ، پیٹرول ڈخیرہ ہونا شروع ہوگیا، کورونا وائرس کے خلاف آنے والی موثر دوا ٹوسیلی زومیب اور ریم ڈیسیور انٹرنیشنل مارکیٹ سے سو گنا مہنگی بلیک ہونے لگی، کورونا وائرس کے ٹیسٹ مریض چھپانے لگے، گھروں میں لاشیں نکلنے لگیں اور سرکار بھی بے ہنگم ہجوم میں نفسا نفسی میں پریشان دکھائی دینے لگی۔
یہاں حال ایک ٹریفک وارڈن جیسا ہوا جو کسی رش والے چوک پر ایک حد تک سب کنٹرول کرتا ہے اور پھر اس کی بس ہوجاتی ہے اور سب نظام جام ہونے لگتا ہے۔ ہم نے کورونا وائرس میں اپنی پرانی روش بحال کی۔ ڈاکٹروں کو سیلیوٹ سے جوتوں پر لے آئے۔ سوشل میڈیا بھی اپنا کردار کھونے لگا،ڈالرز میں لاشوں کی تجارت، ڈاکٹر قصائی جیسے نعرے اور وڈیوز وائرل ہونے لگیں اور یوں پورا Narrative ہی بد اعتمادی، بے ایمانی،نفسا نفسی اور بے ہنگم بے چینی پر بنایا جانے لگا۔
عوام نے سرکار اور ڈاکٹروں کی بات سننا تو دور،اس بات سے ہی انکار کرنا شروع کردیا کہ کورونا وائرس نام کا کوئی مرض بھی موجود ہے۔ انہوں نے اسے سازش قرار دے دیا، لوگ ہسپتالوں سے اپنی لاشیں لے کر بھاگتے دکھائی دیے۔ اب جو حالات ہیں وہ بدترین ہیں اور اس سے بھی بدترین ابھی آنا ہے۔یہ جون ہے،محققین کہتے ہیں کہ جولائی کے آخر میں پاکستان میں حالات بدترین ہوجائیں گے اور یہ وہ وقت ہوگا جب نفسا نفسی کا عالم اپنی انتہا کو چھو رہا ہوگا، پہلے سے ناپید ہوتے وینٹیلیٹر اور ختم ہوجائیں گے۔
آپ کی پوری ہیلتھ ریسورس تھک چکی ہوگی، عوام بات سننے کو بالکل تیار نہیں ہوگی، زمانے کے جہال اس سب عذاب میں اپنا اور حصہ ڈال رہے ہوں گے اور اس سب کے ساتھ ڈینگی جیسی موسمی بیماریاں بھی اپنے سیزن کا آغاز کردیں گی۔ میں بطور ڈاکٹر اور بطور کالم نگار آنے والے وقت اچھا نہیں دیکھ رہا اور یہ وقت شاید وہی ہوگا کہ جب برلن میں روس کی فوجیں داخل ہوچکی ہوں گی۔
ہم نے عید پر آزادی، ڈاکٹر قصائی کی اصطلاح سے بد اعتمادی اور ذخیرہ اندوزی جیسے اقدام کرکے سٹالن پر حملے جیسے غلطی کردی ہے۔ہم یہ جنگ جیت رہے تھے، تفتان ہماری پہلی غلطی تھی اور آخری غلطی ہمارا قومی رویہ ہوگا۔ناشکری کا ایک زاویہ حالتِ عزاب میں آٹا , پیٹرول ذخیرہ کرنا, ٹوسیلیزومیب بلیک کرنا اور کورونا کا پلازمہ مہنگے ترین داموں بیچنا بھی ہے۔ ٹڈی دل کے حملے سے زیادہ یہ قوم خود پر خود حملہ آور ہے۔ یاجوج ماجوج کی قوم اوقات کی زنجیروں سے آزاد ہوجائے تو ایک دوسرے کا گوشت نوچنے لگ جاتی ہے۔ گوشت نوچنے کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا ہوگی؟ قیامت کا اور انتظار کیا ہوگا؟ یہ قیامت ہی ہے۔