وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کب ہوگا؟

پیر 2 اگست 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

پچھلے عرصے چوک یتیم خانہ سے گزر ہوا. موٹر سائیکل چلاتے ہوئے وارڈن نے ہاتھ کے اشارے سے روکا، میں رک گیا. سوچا کہ موصوف اب چالان کریں گے. مگر وہ سب کو روک رہے تھے. ٹریفک مکمل طور پر بند کر دی گئی. میں نے حضرت سے دریافت کیا کہ "جناب آپ نے کیوں روکا؟" کوئی نیا جواب نہیں ملا مگر ہمارے لیے افسوس کا باعث تھا. محترم نے فرمایا "وی آٸی پی لوگوں نے گزرنا ہے.

جب تک وہ گزر نہیں جاتے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا" سن کر تھوڑا تجسّس ہوا ک آخر یہ وی آئی پی صاحب ہیں کون؟ مگر اس کا مجھے پتا نہیں چل سکا. پانچ سے چھ منٹ انتظار کے بعد راستہ کھول دیا گیا اور جانے کی اجازت مل گئی. یہ تو وہ روداد تھی جو اس دن پیش آئ مگر درحقیقت سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کب تک یہ وی آٸی پی  کلچر میں رہے گا؟ کون اسکا خاتمہ کرے گا؟ دنیا اس کلچر کو ختم کراہی ہے اور ہم اس کو اپنے ملک میں فروغ دی رہے ہیں.

اس سے ہمارے ملک کی جمہوریت کو نقصان پہنچ رہا ہے. افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کلچر کے خلاف آواز اٹھانے والے بھی اسی مرض کے شکار نظر آتے ہیں. وی آٸی پی  کلچر سے پیش آنے والی مشکلات اور نظام کی خرابیاں ملک پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں. تعلیمی نظام میں نظر آنے والا واضح فرق اسی کلچر کی وجہ سے ہے جسکا نقصان طالب علموں کو ہو رہا ہے.

غریب کے بچے کا تعلیمی نصاب الگ اور وی آٸی پی لوگ  کا الگ. جس کی وجہ سے پاکستان کے مستقبل کے معماروں میں احساس محرومی پیدا ہو رہی ہے. پاکستان میں یہ نظام بہت عرصے سے ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے. کس حکومتی عہدیدار، وزیر یا مشیر نے کسی سڑک سے گزرنا ہو تو دس دس، پندرہ پندرہ منٹ تک ٹریفک روک دی جاتی ہے. بے انتہا پروٹوکول کے ساتھ گزرنے والا وہ شخص اگر لیٹ ہو جائے تو اس کا خمیازہ بھی عوام کو بھگتنا پڑے گا.

اور دس یا پندرہ نہیں بلکہ آدھے سے ایک گھنٹہ بھی آپ کو انتظار کرنا پڑ سکتا ہے. انکے کسی سکول یا کالج کے دورے پر 3،3 گھنٹے طالب علموں کو انکے استقبال کے لئے کھڑا رکھا جاتا ہے اور اسکے بعد انکی تقریر آدھے گھنٹے کی سننی پڑتی ہے. یہ وی آئی پی کون ہیں اور کس نے انکو وی آئی پی  بنایا؟ اور آخر کیوں عوام انکا انتظار کرے؟ جتنی مرضی ایمرجنسی ہو مگر جب تک وی آٸی پی  صاحب گزر نہیں جاتے...

آپ نہیں جا سکتے. عوام اس سب کی ذمہ دار ہے. اگر ایک غریب کے تعلیمی نصاب اور انکے تعلیمی نصاب میں فرق ہے تو اس کا ذمہ دار بھی وہی غریب آدمی ہے جس نے اپنے حق میں آواز نہ بلند کی. ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا، ظالم کی حمایت کا کھلم کھلا اعلان ہے. یم پاکستان سے وی آٸی پی کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں. عوام اس کلچر سے آزادی چاہتی ہے. ملک کا نظام اس کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے.

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کلچر کی مخالفت کرنے والے، اسکو سپورٹ کرنے والوں سے کہیں گناہ زیادہ ہونے کے باوجود اسکے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں. دراصل آواز کو نہیں اٹھاتا... ظلم کے خلاف چپ سادھ لینا مفاہمت نہیں بزدلی کہلاتا ہے. ہم کمزور نہیں... ہم اپنا دفاع خود کر سکتے ہیں .آئیے بہادر بنئیے! آئیے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیے! آئیے اپنے حق کی خاطر اٹھئیے!
خدا وند کریم آپ سب کا حامی و ناصر ہو�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :