معاشرے کا امن، سزاؤں کا کردار

جمعرات 28 مئی 2020

Dr Maqbool Ahmad Siddiqi

ڈاکٹر مقبول احمد صدیق

ہم جس دور سے گذر رہے ہیں اسمیں جہاں انسانی شعور نے بڑی ترقی کی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی نے بڑی ترقی کی ہے وہاں معاشرے میں خرابیوں اور جرائم نے بھی خوب ترقی کی ہے اور ظلم وزیادتی میں بھی خوب اضافہ ہوا ہے معاشرے میں حکومتی لیول سے لے کر نچلے طبقے تک ہر سطح پر ظلم اور زیادتی ہورہی ہے۔پہلے زمانوں میں یا پہلی قوموں میں تو ایک یا دو خرابیوں کی وجہ سے ہی قوم پر عذاب آجایا کرتا تھا مگر اب تو اس زمانہ میں ہر طرح کی خرابیاں اور گناہ اور ظلم کا بازار گرم ہے۔

غریب مظلوم بے اختیار بے بس ہے ظلم کی چکی میں پس رہاہے اور ظالم دندناتا پھرتا ہے۔چوری ڈاکہ اغوا زناکاری رشوت ملاوٹ انسانی حقوق کی پامالی ظلم وزیادتی کی ہر قسم سے یہ زمانہ بھرا پڑا ہے۔ اس ظلم کا خاتمہ کیسے ممکن ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ فورا اسلامی سزائیں نافذ کر دی جائیں تو معاشرے کو چوروں ڈاکوؤں مجرموں اور نسل در نسل ظالموں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

جب تک ملک میں اسلامی سزائیں نافذ نہیں کی جاتیں ملک میں امن نہیں ہو سکتا۔
ہمارے معاشرے میں ظلم ہو ہی اس وجہ سے رہا ہے کہ ہم اللہ کی قائم کردہ سزائیں معاشرے میں نافذ ہی نہیں کررہے--اور اسطرح نقصان اٹھاتے ہیں۔اب سزاؤں کے فوری نفاذ کا مطالبہ کرنے والے لوگ ایک بہت بڑی غلطی یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے صرف ایک ہی حکم (کہ سزائیں نافذ کرو) پر ہی خوب زور دیتے نظر آتے ہیں اور باقی حکموں کو مدنظر ہی نہیں رکھ رہے ہوتے باقی احکامات پشت ڈال دیتے ہیں۔

جسطرح افسر کے ایک حکم کو مان کر دس حکموں کو ٹال دینا اطاعت نہیں کہلا سکتی۔بالکل اسی طرج یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ اللہ کے صرف ایک یا چند حکموں پر عمل کرنا ہی اللہ کی مکمل اطاعت کہلا سکتا ہے اور اس سے معاشرہ میں امن قائم ہو سکتا ہے۔معاشرہ میں امن اللہ کے ایک حکم نہیں بلکہ سب حکموں پر چلنے سے ہی ممکن ہے۔یاد رہے کہ اسلام دین فطرت ہے اسمیں صرف سزائیں نہیں ہیں--بلکہ ایک پورا نظام ہے۔

معاشرے کے افراد کے حقوق وفرائض سب کا تفصیل سے ذکر ہے۔اگر معاشرہ میں سب لوگ اپنے فرائض صحیح طرح سرانجام دینے لگیں تو سب لوگوں کو ان کے حقوق باآسانی مل جائیں گے۔ہر انسان کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہوں ،معاشرے میں انصاف ہو تو اسکے بعد کسی کا جرم کرنا ازحد حیرانی کی بات ہوگی۔
چنانچہ دیکھ لیں اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے مگر خلفائے راشدین کے پورے عہد میں چوری کی سزا صرف 6 دفعہ نافذ کی گئی (اسلام کا تصور جرم وسزا-عالمی ادارہ فکر اسلامی اسلام آباد طبع اول)
پس معاشرے میں اگر تمام لوگ اپنے اپنے فرائض کا خیال رکھیں گے ۔

تمام احکام الہی کا خیال رکھیں گے اور معاشرہ سب کے حقوق بھی احکامات الہی کے مطابق دے رہا ہوگا تو جرائم کا خاتمہ یقینا ہوجائے گا---ریاست کا سب احکامات الہی کو پورا کرنے کے بعد اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد مجرم یا ظالم کو سزا دینا جائز ہوگا۔ اس وقت کہہ سکتے ہیں کہ ایسی سزاؤں کے نفاذ سے معاشرے میں امن قائم ہو سکتا ہے۔یعنی ایک حکم نہیں بلکہ تمام احکامات الہی کو پورا کرنے کے بعد ہی سزائیں دی جائیں تو یہ درست طریقہ ہوگا۔

ویسے بھی بہت چھوٹی سطح پر یعنی گھر کے لیول پر دیکھ لیں جس گھر میں والدین بچوں کو صرف سزائیں دینے پر زور رکھتے ہیں ان گھرانوں میں کبھی امن قائم نہیں ہوتا--امن وہی ہوگا جہاں پہلے بچوں کی اچھی تربیت ہوگی حوصلہ افزائی اور انعام ہوگا پھر اسکے بعد بھی کوئی غلطی ہو تو سختی یا سزا دینا اسی سے گھروں میں امن ہو سکتا ہے۔
اب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں جاگیردارانہ نظام یا قبائلی روایات - مذہبی یا سیاسی علاقائی تعصبات و اقرباء پروری کی وجہ سے جگہ جگہ ہم مختلف ظلموں کا شکار ہوتے ہیں اور بے شمار مواقع پر احکامات الہی کی پابندی ہی نہیں کرتے،ایک چھوٹی سی مثال بتاتا ہوں مثلا اسلامی نظام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے یہاں جذباتی لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ اس سزا کو فورا ملک میں رائج کیا جانا چاہیئے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ نے صرف ایک ہی حکم ہمیں نہیں دیا کہ سزائیں دو بلکہ لوگوں کے مابین انصاف کا بھی حکم دیا ہے کیا پاکستان میں سب ادارے اور عدالتیں انصاف سے مکمل کام لیتی ہیں کیا امیر اور غریب کے لیے ایک ہی قانون ہے یقینا ایسا نہیں ہے---تو ایسے وقت میں اگر فورا چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر کر دی جائے گی تو کیا ہوگا۔

یہی کہ غریب یا کمزور پر تو چوری کا کیس ڈال دیا جائے گا اسکا ہاتھ تو کاٹ دیا جائے گا مگر امیر اور زیادہ اثرورسوخ سے اپنی چوری کو چھپانے والا بچ نکلے گا کیا یہ درست ہوگا ہرگز نہیں۔چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا سے پہلے انصاف کا مکمل نظام قائم کرنا ہو گا۔پھر بھی کوئی چوری کرے تو احکام الہی کے ماتحت پہلے بایاں ہاتھ کاٹا جائے گا تاکہ وہ دوسرے ہاتھ سے محنت مزدوری جاری رکھ سکے دوبارہ چوری پر دایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا جائے گا۔

چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہمارے ملک میں فوری نافذ بھی نہیں کی جا سکتی۔کیونکہ دنیاوی نکتہ نظر سے بھی دیکھیں تو ہر گناہ یا جرم کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک سبب دوسرا اثر
مثلا چور کا چوری کرنا تو ایک نتیجہ ہے ایک اثر ہے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس جرم کا سبب کیا تھا اسکی وجہ کیا تھی معاشرے کا فرض ہے کہ وہ وجوہات اور اسباب کو دور کرے۔مثلا اگر ایک نہایت غریب شخص ہو جسکی بنیادی ضرورت معاشرہ پوری ہی نہیں کر رہا وہ اور اسکے بیوی بچے فاقوں سے مر رہے ہیں وہ اگر کہیں روٹی چوری کر رہا ہے تو اسکا چوری کرنا ایسا جرم نہیں کہلایا جا سکتا کہ اسکے ہاتھ ہی کاٹ دیے جائیں۔

چور کا مقصد جان بوجھ کر چوری نہیں کرنا تھا اسکی بے کسی اور مجبوری نے اسے مجبور کیا اور اس نے چوری بھی محض ایک دوروٹی کی تو ایسے معاملات کو حل کرنا بھی معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
انسانوں کے حقوق کیا ہیں پسے ہوئے اور غریب اور مظلوم طبقہ کے حقوق کیا ہیں اس بارے میں تو ہم احکامات الہی کی پرواہ نہ کریں- جنہوں نے فرائض میں غفلت کی ہے انکو غفلت پر سرزنش نہ کریں۔۔۔ صرف سزا دینے کے وقت احکامات الہی یاد رہیں تو یہ سخت غلط طریق ہوگا۔اللہ کے ایک حکم پر عمل کرنا اللہ کی اطاعت کرنا ہرگز نہیں ہے-سب حکموں پر چلنا یہ اصل طریق ہے سب حکموں پر چلتے ہوئے اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں تب ہی جرائم اور ظلموں کا خاتمہ ہوگا تب ہی امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :