طارق عزیز سے ڈاکٹر عامر لیاقت تک کا سفر

اتوار 30 اگست 2020

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان خاموشی سے اپنی زندگی کا سفر لمحہ بہ لمحہ طے کر رہا ہوتا ہے مگر اچانک کوئی خبر،واقعہ یا حادثہ اسے ماضی کی طرف لے جاتا ہے۔ 17جون 2020بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب پاکستانی شوبز کی ایک نامور شخصیت طارق عزیز دارفانی سے رخصت ہوئے ۔ملک بھر کے تمام چینلز نے ان کے بارے خصوصی پروگرام نشر کیے۔ طارق عزیز کا نام آتے ہی ہم سکرین کی دنیا اور اس کی چکا چوند میں کھو سے جاتے ہیں۔

پاکستان میں طارق عزیز ٹیلی ویژن کی دنیا کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ طارق عزیز،ضیاء محی الدین، انور مقصود اور معین اختر ٹیلی ویژن کی زینت ہوا کرتے تھے۔ ان لوگوں کا تعلیمی،علمی اور عملی دیکھا جائے تو ایسی ایسی اسناد اور کارکردگیاں سامنے آئیں گیں جو دماغ کو پرسکون اور روح کو معطر کر دیں گی۔

(جاری ہے)

موجودہ دور میں میڈیا چاہے کوئی بھی ہو وہ نوجوان نسل کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ہماری پرورش میں بھی ٹیلی ویژن کا بڑا ہاتھ رہا ہے ۔ہم جب مستنصر حسین تارڑ کا پروگرام دیکھتے اور ان کو چاچا جی کہتے تھے ان کے پروگرام میں 5 منٹ کی کارٹون فلم دیکھے بغیر ہمارا ناشتہ مکمل نہیں ہوتا تھاان نرم اور شگفتگی سے بھر پور جملے۔ ہمیں پورا دن ہمیں تروتازہ رکھتے تھے۔ وہ وقت ایسا تھا جب پڑوسی ملک کے خبرنامے میں ہمارے ڈراموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے بنائے ہوئے ڈراموں کا مقابلہ کرنے کیلئے دوردرشن کے بڑوں کا اکٹھ ہوا ۔

یہ الفاظ ہمارے لیے ایک اعزاز کی حیثیت آج بھی رکھتے ہیں پھر دوردرشن ہمارے ڈرامے نقل کر کے اپنے چینل پر چلاتے رہے ۔تنہایاں ڈرامہ ہندوستان میں چلائے جانے والے ڈراموں میں سر فہرست تھا۔ پی ٹی وی نے وارث، برگر فیملی، سونا چاندی، الفا، چارلی،سنہرے دن، دن رات،دھواں،گیسٹ ہاؤس جیسے اور بھی کئی لازوال ڈرامے پیش کئے۔ ایک وقت تھا ہمارے ملک کے طالب علم اور سی ایس ایس کرنے والے نوجوان نیلام گھر دیکھ کر اپنے امتحانات کی تیاری کیا کرتے تھے۔

نیلام گھر نے سب سے پہلے علمی اور فیملی گیم شو کا آغاز کیا۔گیم شو تو آج بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ انعامات نیلام گھر کی نسبت بہت بڑے ہیں مگر وہ وقار کہیں نظر نہیں آتا۔ طارق عزیز شادی شدہ جوڑوں کو بلا کر واشنگ مشین کی قیمت لکھنے کو کہتے اور ہال میں موجود لوگوں سے کہتے آپ مشورہ دے سکتے ہیں پورا ہال شور و غل سے بھر جاتا مگر جب طارق عزیز منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے تو ایسی خاموشی ہوتی جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھما کر سب کو خاموش کروا دیا ہو۔

وہ جادو کی چھڑی ان کا کردار تھا کہ جب وہ کہیں بولنا ہے تو بولیں گے وہ کیں شور کرنا ہے تو کریں گے وہ ہاتھ اٹھائیں گے تو ہم نے فوراً خاموش ہو جانا ہے اور آج کی گیم شو کے میزبان چیخ چیخ کر تھک جاتے ہیں مگر لوگ خاموش ہونے کو تیار نہیں اور جو بے ہودگی وہاں سرعام دکھائی جاتے ہے اس سب کے ہوتے ہوئے ہم ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں کہ وہ ایسی کون سی نفسیاتی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر زینب جیسی معصوم کلیاں آئے روز مسل دی جاتی ہیں جو ہندوستان ہمارے ڈرامے چوری کر کے دیکھایا کرتا تھا ہم اس کے کلچر کو اپنی فلموں اور ڈراموں میں پیش کر رہے ہیں۔

بہنوئی اور سالی،سسر اور بہو دیور اور بھابھی ہمارے معاشرے کے بہت خوبصورت،پاکیزہ اور عزت والے رشتے ہیں مگر ہم ہندوستانی کلچر کو اپنائے ہوئے ان پاکیزہ رشتوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔ظاہر ہے ہماری نوجوان نسل جو ٹی وی پہ دیکھے گی وہی کرے گی تو ہم انکو سوائے فلرٹ اور جنسی ہوس کے کچھ دیکھا ہی نہیں رہے۔ ایک وقت تھا بڑے بھائی کی بیوی گھر میں دیور اور نندوں کیلئے ماں کی حیثیت رکھتی تھی سسر باپ ہوا کرتا تھا بہنوئی بڑے بھائی جیسا تھا مگر اب جو کچھ ہم ٹی وی،ڈرامے اور فلم میں دیکھا رہے ہیں وہی کچھ ہمارے گھروں میں ہو رہا ہے جبکہ ہمارے بچوں کے کارٹون بھی ان کو فلڑٹ ہی سیکھا رہے ہیں۔

ہم اگر اپنے معاشرے کو راہ راست پر لانا چاہتے ہیں تو میڈیا کلچر کو یکسر اور فوراً تبدیل کرنا ہو گا ۔ہمیں اپنے اصل اور خوبصورت معاشرے کی طرف فوراً لوٹنا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمیں دیر ہو جائے عامر لیاقت بحثیت پروگرام میزبان نہیں،طارق عزیز جیسے لوگ پیدا کرنے ہونگے۔بقول شاعر
نہ جانے کتنے چراغوں کو مل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :