قلم

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

"قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں''(القرآن)۔قران پاک میں اللہ تعالیٰ نے جن بے شمار چیزوں کی قسم کھائی ہے ان میں قلم بھی شامل ہے ۔قلم اور علم کے بارے قرآن پاک میں بے شمار آیات مبارکہ ہیں۔ قلم کی اہمیت کا اندازہ ہم ایسے کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی میں قلم اور قلم کے ذریعے انسان کو علم سیکھانے کا کہا ہے یعنی علم سیکھنا قلم ہی کی بدولت ممکن قرار دیا گیا ہے۔

قلم کے نام سے ایک سورة مبارکہ بھی موجود ہے مگر جو سب سے اہم بات قلم،علم سیکھنے اور سیکھانے کی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو قلم کے ذریعے علم سیکھایا گیا ہے۔ قلم کا پہلا استعمال حضرت شعیب علیہ السلام نے کیا۔ تب سے آج تک کا سفر جاری ہے۔ انسان کے علاوہ اور کوئی مخلوق قلم کا استعمال نہیں کرتی ۔

(جاری ہے)

یہی حال مطالعہ کا ہے۔ مطالعہ کرنے کا شرف بھی انسان کو ہی حاصل ہے ۔

ہم انسان کی ترقی کو دیکھتے ہیں پھر انسان کے بعد جس مخلوق کا ذکر آتا ہے وہ ہے جن ،مگر وہ بیچارے ابھی بھی تک کھنڈرات اور ویرانوں میں رہتے ہیں انسان کو اشرف المخلوقات بنانے میں دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک ام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرا قلم ۔کیوں کہ قلم ہی نے انسان کو زمین کی حدود سے باہر نکال کر خلا اور پھر چاند تک پہنچایا ۔

قلم ہی کی بدولت انسان سمندروں کی تہہ تک پہنچا اور دریاؤں کے رخ موڑ دئیے گئے ۔اللہ تعالیٰ نے قلم کے ذریعے ہدایت مطلب الہامی کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے اور انسان کو یعنی انبیاء کرام کو معلم اور عمل کر کے دیکھانے والا بنا کر بھیجا تاکہ انسان کی تربیت کی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ کسی اور مخلوق پر کوئی علم یا عمل مخصوص کر کے نازل نہیں فرمایا۔

جنوں کے علاوہ باقی تمام مخلوق قرآن پاک اور ہدایت دونوں کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں مگر قلم اور مطالعہ کی خاصیت صرف انسان کو ہی عطا کی گئی ہے۔ آج سے شاید چند سال پہلے ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے میں نے قلم اٹھایا تاکہ ڈاکٹرز حضرات کے مسائل اور عوام کے رویے پر کچھ لکھ سکوں مگر پھر میں نے ہر معاشرتی پہلو اور حالات حاضرہ کو سامنے رکھتے ہوئے قلم کا استعمال کرنے کی کوشش کی۔

میں نے اپنے محدود علم کو استعمال کرتے ہوئے اپنے معاشرے کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ساتھ ان عوامل کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی جن کی بدولت ہمارے معاشرے میں وہ کمزوریاں بگاڑ پیدا کر رہی ہیں۔ میں نے کمزوریوں کے سد باب کیلئے تجاویز بھی پیش کیں تاکہ معاشرے میں بہتری لائی جاسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا پیدا نہیں کیا جس کا حل نہ ہو۔

جون کے شروع میں امریکہ میں ایک سیاہ فارم کے قتل کے بعد جو حالات ہم نے وہاں دیکھے ۔وہ ثابت کر گئے کے ہماری عوام امریکہ کی عوام سے بہت درجے بہتر ہے ۔میں نے ان لوگوں کو ایک کروڑ کی گاڑی لیکر بازار آتے اور جوتوں کی دکان سے چند جوڑے لوٹ کر لے جاتے دیکھا۔ تو اپنے ذہن پر زور دیا کہ کیا ہمارے ملک کا کوئی ایسا شخص ہے جس کے پاس اتنی بڑی اور مہنگی گاڑی ہو، جوتوں کی دکان سے دو جوڑے چوری کرے گا؟یقینا نہیں ۔

ممکن ہے ایسے حالات میں وہ کسی سنار کی دکان سے کچھ مفت کا مال سمجھتے اٹھا لے مگر جوتے نہیں اٹھائے گا۔ مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کی تربیت کیلئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں بس کوشش کرنی ہے کہ ہمارے لوگوں میں احساس ذمہ داری کو جگایا جا سکے ۔جس نے ہمارے پورے معاشرے میں نہ سہی صرف دس فیصد لوگوں کے اندر احساس ذمہ کو جگا دیا تو ہم دنیا کی کسی بھی مہذب قوم کو چند دنوں میں مات دے سکتے ہیں۔

جون سے پہلے تک میں مایوس تھا مگر امریکی عوام کی حرکات دیکھ کر اب میں پُر امید ہوں کہ ہم کوشش کریں اور ہر پل کوشش سے اپنی عوام کو مہذب بنا سکتے ہیں اور اسکا سب سے بڑا اور آسان ذریعہ قلم ہے کیونکہ مالک کائنات نے بھی قلم ہی کے زریعے انسان کو سیکھایا ہے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں''ہمارے گاؤں میں ایک عورت ہوا کرتی تھی وہ کبھی کسی کو برا نہیں کہتی تھی کوئی چور ڈاکو یا کسی بھی برے شخص کا ذکر ان کے سامنے کیا جائے تو وہ اسکی تعریف کچھ ایسے کرتی کہ اسکی برائیاں کہیں گم ہو جاتیں''ایک دن میں اور میرے بڑے بھائی نے بہت تیاری کی کہ آج تو وہ اسے گالیاں ضرور دیں گی۔

ہم دونوں تیار ہو کر انکے گھر پہنچے ہم نے مسکراتے ہوئے سوال کیا'' اماں آپ شیطان کے بارے میں کیا کہتی ہیں کہ وہ کیسا ہے؟ ''جواب ملا بڑا ہی محنتی ہے ۔کچھ بھی کر لو اپنی محنت اور کوشش جاری رکھتا ہے کبھی نہیں تھکتا اور ہم تو اشرف المخلوقات ہیں۔ شیطان کو ہمیں سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ فرشتوں سے انسان کو سجدہ کروایا گیا۔ ہمارے لیے توبہ کے دروازے ہر لمحہ کھلے ہیں تو کیا ہم کوشش کرنا چھوڑ دیں ہر گز نہیں ۔میں اپنے قلم اور اپنے لوگوں سے ہر گز مایوس نہیں اور نہ ہو سکتا ہوں کیونکہ مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الااللہ ۔بقول شاعر
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :