حقیقی ہیرو

پیر 23 نومبر 2020

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

گزشتہ 2 سال سے میں تحصیل ہیڈ کوارٹر سمبڑیال میں تعینات ہوں۔ یہ ایک چھوٹا سا ہسپتال ہے یہاں سہولیات بھی کچھ خاص زیادہ نہیں ہیں۔ آپ اس بات کا اندازہ ایسے لگا سکتے ہیں کہ میں یہاں پہلا میڈیکل اسپیشلسٹ ہوں ۔اس علاقے میں اردگرد چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں کوئی خاص بڑا شہر قریب نہیں ہے سوائے سیالکوٹ کے۔کرونا کے دوران بیس پچیس دن لاک ڈاؤن میں ذرا نرمی ہوئی تو ہسپتال میں لوگوں کا جمع غفیر دیکھ کر فکر لاحق ہوئی کہ اگر یہ لوگ کرونا کا شکار ہو گئے تو کیا ہو گا۔

جب اکثریت کا معائنہ کیا تو جو بیماریاں وہ بتا رہے تھے وہ سن کر جی چاہتا تھا سر دیوار سے مار لوں۔ اتنے خطرناک حالات میں یہ ان بیماریوں کا علاج کروانے ہسپتال آئے ہیں جبکہ گھر سے نکلناصرف اپنی ہی نہیں بلکہ گھر والوں کی زندگی بھی خطرے میں ڈالنا ہے۔

(جاری ہے)

پچھلے دو سالوں میں اب میرا تجربہ یہ ہے کہ لوگ جن بیماریوں کا معائنہ کروانے ہسپتال آتے ہیں وہ گھریلو مختصر دوائی سے بھی ٹھیک ہو جاتی ہیں مگر لوگ ہسپتال آنا فرض سمجھتے ہیں ،معائنہ کرواتے ہیں، نسخہ بھی لکھواتے ہیں مگر علاج گھریلو ٹوٹکوں سے ہی کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ تندرست بھی ہو جاتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ لوگوں نے اگر دواء استعمال کرنی ہی نہیں تو وہ ہسپتال آتے ہی کیوں ہیں؟ میں نے عوام کے اس رویے کا جو نتیجہ ذاتی طور پر نکالا ہے وہ میرے لیے حیران کن بھی تھا۔ہمارا تعلق ایک بہت ہی غریب ملک سے ہے۔ یہاں اکثریت کو سوائے ٹی وی کے اور کوئی تفریحی سرگرمیاں میسر ہی نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہسپتال ایک ایسا پبلک ادارہ ہے جہاں ہر کوئی بغیر تمیز کے بمعہ فیملی 24 گھنٹے کسی بھی وقت آسکتا ہے۔

باقی کسی بھی ادارے میں عوام کو یہ سہولت میسر نہیں ۔ہماری یہ معصوم عوام ٹیلی ویژن پر ڈرامے دیکھتی ہے ۔ٹی وی ڈراموں میں ہم بہت بڑے گھر اور بہت ہی امیر گھرانوں کی کہانیاں دیکھتے ہیں۔ وہاں ہیرو بہت ماڈرن تھری پیس سوٹ میں ایک شاندار آفس میں کام کرتا ہے۔ ان کی گاڑی بھی بہت قیمتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے لاونج میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں ۔چائے پیتے بھی اسی سوٹ میں ملبوس ہوتا ہے۔

ہاں جب وہ ڈنر(رات کا کھانا)کرتا ہے تو کوٹ ڈرائنگ ٹیبل پر بیٹھتے کرسی کی پشت پر رکھتا ہے اور اپنی ٹائی کی ناٹ بھی تھوڑی ڈھیلی کر دیتا ہے ہاں البتہ جب وہ صبح جاگنگ کرتا ہے تو اسکا لباس مختلف ہوتا ہے۔ ٹراؤزر بنیان اور جاگر پہنے جب وہ واپس گھر آتا ہے تو لان میں اورنج جوس اور سفید تولیہ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ایسا ہی حال ہیروئن کا ہے۔ فل میک اپ،قیمتی لباس، ہیل والی سینڈل پہنے وہ کسی حور سے کم نہیں نظر آتی۔

ہمارے ڈراموں کی ہیروئن پہلے توکچن کا کام کرتی ہی نہیں۔ اگر کرتی بھی ہیں تو فل میک اپ میں ،جبکہ ہماری ہیروئن سوتی بھی میک اپ کر کے اور اس پر ستم یہ کہ جب وہ 6 گھنٹے میں نیند پوری کر کے آنکھیں کھولتی ہے تو بھی اس کا میک اپ جوں کا توں ہی ہوتا ہے بلکہ اسکے ہیئر سٹائل پر ذرا برابر بھی فرق نہیں پڑتا ۔ ہماری عوام اس بناوٹی زندگی کو حقیقت سمجھتے ہیں اور یہ معصوم لوگ ٹی وی پر نظر آنے والے خوبصورت اور ویل ڈریسڈ چہروں کو حقیقی زندگی میں دیکھنے کے لیے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر حضرات اچھے کپڑے پہنے ہوئے، ٹائی لگائے ہوئے،بال سلیقے سے سیٹ ،ہاتھ پر گھڑی اور ہلکی سی پرفیوم لگائے ہوئے وہ عوام کو بالکل ڈرامے کے ہیرو ہی لگتے ہیں ۔یہی حال لیڈی ڈاکٹر کا بھی ہے۔ اچھے کپڑے ،ہلکا سا میک اپ، میچنگ جوتے ، نیل پالش اور بال خوبصورتی سے بنائے ہوئے وہ بھی ڈراموں والی ہیروئن ہی لگتیں ہیں۔ لہذا ان لوگوں کیلئے وہ ہیرو اور ہیروئن ڈاکٹرز جیسے ہی ہوتے ہیں ۔

لیکن۔۔۔ اگر وہ لوگ ہمیں گھروں میں پرانے کپڑے اور جوتے پہنے ہوئے گھروں کا کام کرتے اور بچوں کو سنبھالتے دیکھ لیں یا لیڈی ڈاکٹر کو گرمیوں میں کچن میں کھانا پکاتے دیکھیں یا ہمیں کسی ڈھابے پہ بیٹھے ماش دال اور روٹی کھاتے دیکھ لیں تو شاید ہسپتالوں میں رش کم پڑ جائے۔ میری تمام ڈاکٹر حضرات سے گزارش ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ایسا مریض آئے جسے کوئی بیماری نہیں تو براہ کرم ان سے ہنس کے بات کر لیا کریں ۔

کیونکہ وہ وہاں کسی بیماری کا علاج کروانے نہیں بلکہ آپ کو دیکھ کر اپنے غم کا علاج کروانے آتے ہیں۔ ان کی نظر میں حقیقی ہیرو وہ ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے لوگ نہیں بلکہ آپ ہی ہوتے ہیں۔ بقول شاعر
میں تبسم فروش ہو نعمان
لوگ مجھ کو نہیں اداس پسند

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :