بدنام جو ہوں گے تو ۔۔۔۔۔

منگل 2 فروری 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

محبت دنیا کا سب سے بڑا جذبہ ہے مگر اس جذبے کی مکمل اور جامع تعریف آج تک کوئی نہیں کر سکا۔ زمانہ قدیم سے شعراء حضرات اس پر لکھ رہے ہیں۔ بڑے بڑے مفکرین نے اس پر بے شمار شہرہ آفاق کتابیں بھی لکھیں ، بڑے بڑے ناول نگاروں کے ایسے ایسے اقوال ہیں جنہیں اگر ایک دفعہ پڑھ لیا جائے تو معاملہ سلجھنے کی بجائے اور الجھ جاتا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے محبت پا لینے کا نام نہیں ۔

کچھ کا کہنا ہے محبت کا تعلق روح سے ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ صاحبہ کے ناول امر بیل کا ایک بہت ہی خوبصورت جملہ ہے کہ محبت کوئی سرکاری نوکری نہیں جس میں عمر کی حد ہو۔ موجودہ زمانے میں محبتوں کے معیار کچھ اس طرح بدلے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ محبت صرف افسانوں ،ناولوں اور شاعری میں ہی باقی رہ گئی ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ2 دہائیوں سے زائد عرصہ سے ہمارے ہاں بھی 14 فروری محبت کے عالمی دن کے طور پر باقاعدہ منایا جا رہا ہے۔

ہمارے ہاں فروری کے اس موسم میں بسنت منائی جاتی تھی اور بسنت منانے کی وجہ سے سخت سردی کے بعد بہار کی آمد کا استقبال اور موسم کا خوشگوار ہوتا تھا۔ 14 فروری بھی شاید ویسا ہی کوئی دن ہو۔ اس دن کے بارے میں بہت قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ پرندوں کے ملن کا موسم ہے، مطلب کہ سردی کے بعد فروری کے درمیان میں پرندے اپنے گھونسلے بناتے ہیں اور بچے دیتے ہیں ۔

14 فروری،فروری کے مہینے کا درمیان ہے کیونکہ فروری کے 28 دن ہوتے ہیں (لیپ کے سال کے علاوہ جو چار سال بعد آتا ہے) مگر اس کی سب سے مظبوط کہانی ویلنٹائن نامی ایک راہب کی محبت کی داستان بیان کیا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس راہب کو ایک راہبہ سے محبت ہو گئی۔ اس نے شادی کرنے کی کوشش کی مگر مذہب کی دیوار سامنے آ گئی کہ شادی کرنا اور ازدواجی تعلق ایک گناہ ہے۔

اس راہب نے یہ روایت توڑنے کی کافی کوشش کی مگر ناکام رہا اور اس بیچارے سے غلطی ہو گئی۔ اس جرم کی سزا میں اسے پھانسی دے دی گئی مگر یہ بھی کوئی زیادہ مستند کہانی نہیں ہے۔ پاکستان جیسے نظریاتی اسلامی مملکت میں اس دن کے حوالے سے بے راہ روی اور بے حیائی کی قطعاََ نہ تو اجازت ہونی چاہیے اور نہ ہی کسی ایسی کوشش کو سرپرستی ہو نی چاہیے جو اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہو ۔

محبت کی بات جہاں بھی کی جائے وہاں دل کا ذکر خیر ضرور کیا جاتاہے۔ مگر سائنسی نقطہ نظر سے محبت کا دل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے ۔آجکل کے معاشرے میں دولت سے ضرور ہے۔ دل کا کام سر سے لے کر پاؤں تک جسم کے تمام اعضاء کو خون فراہم کرنا ہے اور جدید سائنسی نقطہ نظر کے تحت دل کا محبت سے کوئی لنک ابھی تک سامنے نہیں آیا مگر دل بیچارے کو اس معاملے میں خواہ مخواہ کی اہمیت دے دی جاتی ہے۔

ہم مثال لیتے ہیں کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا کیا کھانے کو دل چاہ رہا ہے جبکہ کھانے کا ذائقہ محسوس کرنے کیلئے زبان دل کی بجائے دماغ کی طرف پیغام بھیجتی ہے اور اس سب کا ایک باقاعدہ نظام ہے۔ انسان وہی چیز کھانا پسند کرتا ہے جسکا ذائقہ اسے پسند ہو جبکہ دل کا کام صرف خون فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح جب کسی کو کوئی کام کرنے کو کہا جاتا ہے توساتھ ایک بے تکی سی بات بھی کہی جاتی ہے کہ دل لگا کر کام کرو۔

جب کا اچھا ہو جائے توسارا کریڈٹ دل لے جاتا ہے اور اگرکام خراب ہو جائے تو صاف الفاظ میں کہا جاتا ہے کہ تمہارا دماغ کہاں تھا۔ دل کا تو اس غصے میں دور دور تک کہیں ذکر نہیں ملتا۔بد نام بیچارا دماغ ہوتا ہے ویسے شعراء کرام نے بھی لفظ بدنام کو نہیں بخشا اور تو اور بدنامی کو ایسے احاطہ تحریر میں لایا ہے کہ کچھ لوگ تو چاہتے ہیں کہ اچھا ہے بدنام ہی ہو جائیں نیک نامی کے تو کوئی آثار نہیں نظر آتے۔

مثلاً بدنام جو ہوں گے توکیا نام نہ ہوگا۔ایسے جب لوگ محبت میں ناکام ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنی محبت بہت یاد آتی ہے تب بھی شاعر حضرات دل کو صاف کر کہ سارا الزام دماغ پر ہی لگا دیتے ہیں ۔مثلاً "یادمانی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا" مطلب کہ محبت کی سزا بھی دماغ بیچارا ہی بھگتے ،مگر شاعر کہ اس شعر سے کسی حد تک ثابت کرنے میں آسانی ہو رہی ہے کہ محبت کرنے میں سارا فساد دماغ کا ہی پھیلایا ہوا ہوتا ہے اور دماغ نے ایک سازش کر کے الزام دل پر لگا رکھا ہے تا کہ وہ بدنامی سے بچ جائے۔بقول شاعر
جس نگر بھی جاؤقصے اس کم بخت دل کے
کوئی لے کے رو رہا کوئی دے کے رو رہا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :