"اپریل فول"

جمعہ 3 اپریل 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

اپریل فول جھوٹ کی اس دنیا میں ایک ایسی رسم بن چکی ہے جس کا ادا کرنا بہت سے ناقص العقل لوگ اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ہر سال اپریل کی پہلی تاریخ کو دوسروں کو عملی یا زبانی طور پر بے وقوف بنانے کی کوشش کر تے ہیں. اپریل فول کو جھوٹ کا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے دوسروں کا نقصان ہوتا ہے. یہ جھوٹ معمولی نوعیت کے مذاق سے لے کر انتہائی درجے تک بھی ہوتی ہیں.

جس سے مالی اور جانی نقصان کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے . اکثر اوقات کچھ لوگ سنگین نوعیت کے جھوٹ بول کر اپریل فول منانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے افراد  اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.
  اپریل فول کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس کی ابتدا یورپ سے شروع ہوئی جو اب تقریباً پوری دنیا میں رواج پاچکی ہے. وکیپیڈیا کی رو سے سولہویں صدی تک  یورپ اور ایران میں  نیا سال اپریل میں شروع ہوتا تھا اور یکم اپریل کو سب نئے سال کی خوشی میں ایک دوسرے سے تحائف کا تبادلہ کرتے تھے.

مگر 1564 میں فرانس کے بادشاہ نے مارچ  میں نئے کلینڈر کا اجرا کیا جس کی بنا پر نیا سال اپریل کے بجائے جنوری میں شروع ہونے کا اعلان کیا گیا. کافی لوگ اس اعلان سے لاعلم تھے اس لیے انہوں نے اپریل کی پہلی تارہخ کو ہی ہمیشہ کی طرح نئے سال کی خوشیاں منائیں. ان لوگوں کو کافی مذاق کا نشانہ بنایا گیا اور اپریل فول کہا گیا. تب سے اب تک یہ ایک روایت بن چکی ہے مگر ایران میں اب بھی پرانا کلینڈر ہی چلتا ہے.
اس کے علاوہ تاریخ دان ہیرالڈلیم کے مطابق  جب اسپین میں مسلمانوں کی حکومت ختم  کی گئی تو عیسائیوں کے شہنشاہ فرنینڈو نے حکومت پر قبضہ کیا.

عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کے اوپر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے. انہوں نے مسلمانوں اس حد تک مجبور کیا کہ انہیں اس ملک میں رہنے کے لیے ہر حال میں اپنا مذہب بدلنا ہوگا وگرنہ یہاں رہنے کے لیے پچاس ہزار سونے کے سکھے دینا ہونگے. حکم عدولی پر انہیں سولی پر چڑھا دیا جاتا تھا.  مسلمان ایسا کرنے پر مجبور تھے. ایک وقت ایسا آیا جب وہاں مسلمان قلیل تعداد میں رہ گئے تو انہیں یہ جھانسادیا گیا کہ وہ سپین چھوڑ کر افریقہ چلے جائیں.

حکومت انہیں افریقہ پہنچانے کے لیے بحری جہاز فراہم کرے گی. مسلمان خوش ہوگئے کہ ان کی تکلیفوں کے دن ختم ہورہے ہیں. چناچہ گیارویں صدی کے آخر میں سب مسلمان اپنے مال و اسباب سمیت ان جہازوں میں سوار ہوگئے تو عیسائی حکومت کی جانب سے انہیں باعزت طریقے سے رخصت کیا گیا مگر سمندر کے بیچوں بیچ پہنچ کر انہوں نے اپنے منصوبے کے مطابق جہازوں کو غرق آب کردیا.

عیسائی  اس دن کو اپنی کامیابی کی یاد کے طور پر مناتے ہیں مگر ہم مسلمان ان کی اندھی تلقید میں پیش پیش یہ دن مناتے ہیں.
   اپریل فول کی روایت باقی دنیا کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں بھی عام ہے, چونکہ اسے جھوٹ  بولنے کا دن بھی کہہ سکتے ہیں اس لیے اسلام کی رو سے اس دن کا منانا کسی طرح بھی درست نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ اسلام نے سختی سے جھوٹ بولنے کی ممانعت کی ہے اور مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے.
سنن الترمذی میں روایت ہے.
ترجمہ : ”معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا " تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔

(جاری ہے)


اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔“
(صحيح بخاري حديث 6095)
اس حدیث میں ہمارے پیغمبر نے جھوٹ بولنے والے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ منافق ہے کیونکہ ایسا شخص اپنے جھوٹ بولنے کی عادت کی وجہ سے نہ تو اپنے وعدے کی پاسداری کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ امانت دار ہوسکتا ہے.

ہمیشہ جھوٹ بولنے والے کا اعتبار بھی لوگوں کے دل میں ختم ہوتا ہے. بچپن میں شیر آیا شیر آیا والی کہانی تو سب نے پڑھی ہے. اگر اسی کے نتیجے کو پیش نظر رکھ  ہم سب اپنے معاملات دیکھیں جھوٹ ہم سب کی رگ و پے میں سرائیت کر چکا ہے. ہمیں اس عادت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے عام دنوں میں بھی اور اپریل کی پہلی تاریخ کو بھی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :