
شخصیت پرستی
جمعرات 4 جون 2020

ڈاکٹر راحت جبین
(جاری ہے)
ہم کیا ہیں؟ ہماری اوقات کیا ہے؟ یہ ہمیں ایک غیر مرئی وائرس کورونا نے اچھی طرح سمجھادیا مگر ہمارے تیور یہی بتاتے ہیں کہ ہم نے خدائی فوجدار بننے کا جو ٹھیکہ اٹھایا ہے اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنا ہے.
اسی سلسلے میں پچھلے دنوں میڈیا اور مولانا طارق جمیل صاحب کے حوالے سے چھوٹی سے بات کو لے کر جو بھونچال آیا تھا اس کی کیا حقیقت ہے؟کون سچا ہے؟؟ کون جھوٹا ہے؟؟؟ یہ اصل مسئلہ نہیں ہے.
اسی شخصیت پرستی کی آڑ میں ہم اپنے رب سے نزدیک ہونے کے بجائے اس کی تخلیق کی ہوئی مخلوق کا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں اور اس کی ناراضگی کے مرتکب ہوجاتے ہیں, اکثر اوقات تو کسی کی موت کا بھی پروانہ اپنے ہاتھ سے جاری کرتے ہوئے نہیں چوکتے.
اگر مذکورہ بالا واقعہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں دو مکتبہ فکر ہیں اور میرا ارادہ کسی بھی مکتبہ فکر کی توہین نہیں . میں نے معاملے کی سنگینی کے بعد اس واقعے کے حوالے وڈیوز دیکھیں مولاناصاحب کا اور میڈیا کا طرز عمل بھی دیکھا.مگر وہاں مجھے کوئی بھی قابل ذکر سنگین معاملہ نظر نہ آیا. مجھے حیرت لوگوں کے رویے پر ہوئی کہ کیسے انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک نان ایشو کو ایشو بنایا . مولانا صاحب نے میڈیا پر بہت زیادہ جھوٹ بولنے کے حوالے سے ایک عام بات کی. جوابا میڈیا کی جانب سے ان سے یہ ریکوسٹ کی گئی کہ وہ مذکورہ فرد کا نام لیں, بجائے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے مگر انہوں نے نام لیے بغیر اپنے طرز عمل کی اور اس کی آڑ میں کسی کی دل آزاری کی معافی مانگ لی جو ان کی اعلی ظرفی ہے مگر یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک عام سے بات کو سوشل میڈیا کے نام نہاد مفکرین ایشو بنا کر نفرت کے بیج کیوں بو رہے ہیں. میڈیا سچ بولتی ہے یا جھوٹ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں میڈیا تو ہے ہی جھوٹا مگر میڈیا کے علاوہ اور کون ہے جو سچا اور حق پرست ہے.حقیقت اور تلخ سچائی تو یہ ہے کہ یہاں سب لوگ اپنے اپنے مفادات اور نفس کے غلام ہیں.
لوگ شخصیت پرستی کی آڑ میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مخالفین کے قابل اعتراض پوسٹر بنا کر انہیں گناہ گار قرار دے دیتے ہیں. مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا والے کسی کو بھی گناہ گار ثابت کرنے کی آڑ میں اپنی عاقبت کیوں خوار کرتے ہیں.
شروع سے ہی ہماری تربیت ایسے جاتی ہے کہ ہمیں شخصیت پرستی کا طوق گلے میں ڈالنا پڑتا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ شخصیت پرستی بھی بت پرستی کی مانند ہے. جب تک ہم شخصیت پرستی کے خول میں بند رہیں گے, ہم صحیح اور غلط کی پہچان نہیں کر سکیں گے. اس کے لیے ہمیں حقیقت پسند بننا ہوگا . جو مرچکے ہیں, انہیں زندہ کرنے کے بجائے اپنے اندر کے ضمیر کو زندہ کرنا پڑے گا. اور جو زندہ ہیں, انہیں بھی اپنے جیسا انسان سمجھنا ہوگا, دیوتا نہیں. اس چیز سے بچنے کے لیے ہمیں اپنے اندر کی جہالت کو ختم کرنا ہوگا اور غلط کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے خود میں ہمت پیدا کرنا ہوگا. میرے نظریہ کے مطابق غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ ہی اس طرز عمل سے بچنے کی طرف پہلا قدم ہے.
ہمیں اگر شخصیت پرستی کرنی ہی ہے تو ہمیں در در کا مسجود اور پجاری بننے کے بجائے ایک اللہ سے ڈرنا اور اس کی اطاعت کرنی چاہیے اور پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پرستی کرنی چاہیے .اور اس پاک اور بابرکت ذات کی توہین کے خلاف ڈھال بننا چاہیے اور اپنی جان بھی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ڈاکٹر راحت جبین کے کالمز
-
"سرطان کا عالمی دن"
جمعہ 4 فروری 2022
-
"کیا ہم مردہ پرست قوم ہیں؟"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021
-
لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟
بدھ 11 اگست 2021
-
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
بدھ 28 جولائی 2021
-
"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"
جمعہ 23 جولائی 2021
ڈاکٹر راحت جبین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.