
مصنوعی بحران، ذمہ دار کون؟
بدھ 17 جون 2020

ڈاکٹر راحت جبین
اس صورت حال کا ذمہ دار لوگ لوکل ڈیلرز کو اور عوام کو ٹہرا رہے ہیں مگر گورنمنٹ کسی بھی چیز کی قیمت کم کرکے, اور باقی ذمہ داری چھوٹے لیول پر ڈال کر خود کو بری الذمہ بالکل بھی قرار نہیں دے سکتی ہے. کیونکہ اسی گورنمنٹ کا قول ہے کہ اگر حکمران چور ہوں تو عوام چور ہوتی ہے اور یہ بات سو فیصد درست بھی ہے کیونکہ حکمران ایماندار ہوں تو اسے قانون نافذ کرنے سے اور عوام کو اس پر عمل پیرا کرانے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی.دوسری صورت میں حکمرانوں کو اپنی کرسی کے اور دولت کے لالے پڑے ہوتے ہیں اور یہی لالچ عوام کی بد حالی کا سبب بنتی ہے .اس مد میں اگر دیکھا جائے تو یہاں پورا ایک مافیہ سرگرم عمل ہے جو ان تمام عوامل کا ذمہ دار ہے. چھوٹے دکانداروں سے لے کر اعلی سطح پر پرائز کنٹرول اتھارٹی صوبائی اور وفاقی گورنمنٹ اور علاقائی انتظامیہ سب کہیں نہ کہیں اس زنجیر میں ملوث ہوتے ہیں.
جہاں تک بات کی جائے کہ اس گورنمنٹ نے پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمت میں کمی کی ہے تو یہ بات بالکل بھی درست نہیں . کورونا کی موجودہ سنگین صورت حال کی وجہ سے عالمی منڈی میں یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہوگیا اور اس کا کریڈٹ لے کر جہاں ایک طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی تو وہیں اس کا مصنوعی بحران بھی پیدا کیا گیا اور دوسری جانب آٹا گھی چینی چاول دالیں دودھ چائے وغیرہ سمیت دیگر اشیا ئے خورد نوش میں بالکل بھی کمی نہیں کی یہ ساری باتیں اس بات کی جانب نشان دہی کرتی ہیں کہ ایک بہت بڑا مافیا سر گرم عمل ہے جو کرپشن کا سارا ملبہ چھوٹے لیول پر ڈال کر خود کو کنارا کرتا ہے.
کبھی یہ بحران چینی کی صورت میں سامنے آتا ہے کبھی گندم اور کبھی پٹرولیم کی مصنوعات کی شکل میں. چینی کی شکل میں جو مصنوعی بحران پیدا کرکے پاکستان میں بننے والی ستر روپے والی چینی کو پہلے درآمد اور بعد میں سبسڈی دے کر برآمد کیا گیا. جکمرانوں کی جانب سے اپنے خاص لوگوں کو نواز کر ان کے کالے دھن کو سفید بنایا گیا ساتھ ملکی سطح پر چھوٹے کاشتکاروں اور عوام کو مہنگائی کی جانب اور غربت کی جانب دھکیلا گیا.
چھوٹے سے لے کر بڑے پیمانے تک ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی کیونکہ یہاں سب کے مفاد ایک دوسرے سے وابسطہ ہوتے ہیں. صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم نے تو قیمتیں سستی کردی ہیں آگے عوام خود چور ہے, ایسا کہنے سے کیا انتظامیہ کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے .
سوچنے کی بات ہے کہ اگر چھوٹے پیمانے پر یہ سب ہورہا ہوتا تو اس کی روک تھام ضرور ہوتی مگر چھوٹے پیمانے پر ہی سہی اسے بڑے ہاتھوں کی سرپرستی ضرور حاصل ہے.
البتہ ایک بات کنفرم ہو ہی گئی ہے کہ جیسی عوام ہوتی ہے وہیسے ہی حکمران مسلط کیے جاتے ہیں . ہم پر بھی اس وقت تین طرح کے عذاب مسلط ہیں ایک جانب کورونا کی وبا دوسری طرف ٹڈی دل کا حملہ اور تیسری جانب ہماری سمارٹ, پاک اور شفاف گورنمنٹ , جو پہلی دو عذابوں سے زیادہ مہلک ہے .اور واقعی میں جو کرپشن بھی یہ گورنمنٹ کررہی ہے اتنی شفافیت سے کررہی ہے کہ داد دینے کو جی کر رہا ہے .
ٹڈی دل کا تو معلوم نہیں مگر اگلے دو عذابوں کے ساتھ کم از کم ہمیں تین سال تک تو مزید گزارا کرنا ہی ہوگا �
(جاری ہے)
�
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر راحت جبین کے کالمز
-
"سرطان کا عالمی دن"
جمعہ 4 فروری 2022
-
"کیا ہم مردہ پرست قوم ہیں؟"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021
-
لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟
بدھ 11 اگست 2021
-
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
بدھ 28 جولائی 2021
-
"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"
جمعہ 23 جولائی 2021
ڈاکٹر راحت جبین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.