مصنوعی بحران، ذمہ دار کون؟

بدھ 17 جون 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

کچھ دن پہلے جب ہم گاؤں سے واپس کوئٹہ کی جانب آرہے تھے تو اپنے گاؤں سے لے کر  کوئٹہ آنے تک ہمیں پٹرول کے لیے بہت خواریاں اٹھانی پڑیں.اول تو پٹرول مل ہی نہیں رہی تھی اور اگر  ستر روپے لیٹر والا پٹرول اگر کہیں سے ملا بھی تو سو روپے فی لیٹر کے حساب سے اوپر. یہی صورت حال کوئٹہ میں بھی پیش آرہی ہے. چند لیٹر پٹرول کے لیے کئی کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے.

حد تو یہ ہے کہ کوئٹہ میں ایک جگہ ہائی آبٹین کے نام سے یہی پٹرول ایک سو پچاس روپے لیٹر میں فروخت ہورہا ہے . اور یہ حال صرف پٹرولیم کی مصنوعات تک محدود نہیں . یہ ہمارے ملک میں روزمرہ کی ہر  چیز کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے  .اشیاء خوردو نوش سے لے کر دوائیاں, ماسک وغیرہ  بھی اسی زمرے میں آتے ہیں.
اس صورت حال کا ذمہ دار لوگ لوکل ڈیلرز کو اور عوام کو ٹہرا رہے ہیں مگر گورنمنٹ کسی بھی چیز کی قیمت کم کرکے, اور باقی ذمہ داری چھوٹے لیول پر  ڈال کر خود کو بری الذمہ بالکل بھی قرار نہیں دے سکتی ہے.

کیونکہ اسی گورنمنٹ کا قول ہے کہ اگر حکمران چور ہوں تو عوام چور ہوتی ہے اور یہ بات سو فیصد درست بھی ہے کیونکہ حکمران ایماندار ہوں تو اسے قانون نافذ کرنے سے اور عوام کو اس پر عمل پیرا کرانے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی.دوسری صورت میں حکمرانوں کو اپنی کرسی کے اور دولت کے لالے پڑے ہوتے ہیں اور یہی لالچ عوام کی بد حالی کا سبب بنتی ہے .اس مد میں اگر دیکھا جائے تو یہاں پورا ایک مافیہ سرگرم عمل ہے جو ان تمام عوامل کا ذمہ دار ہے.

چھوٹے دکانداروں سے لے کر اعلی سطح پر پرائز کنٹرول اتھارٹی صوبائی اور وفاقی گورنمنٹ اور علاقائی انتظامیہ سب کہیں نہ کہیں اس زنجیر میں ملوث ہوتے ہیں.
جہاں تک بات کی جائے کہ اس گورنمنٹ نے پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمت میں کمی کی ہے تو یہ بات بالکل بھی درست نہیں . کورونا کی موجودہ سنگین صورت حال کی وجہ سے عالمی منڈی میں یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہوگیا اور اس کا کریڈٹ لے کر جہاں ایک طرف پٹرولیم  مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی تو وہیں اس کا مصنوعی بحران بھی پیدا کیا گیا اور دوسری جانب آٹا گھی چینی چاول دالیں دودھ چائے وغیرہ سمیت دیگر اشیا ئے خورد نوش میں بالکل بھی کمی نہیں کی یہ ساری باتیں اس بات کی جانب نشان دہی کرتی ہیں کہ ایک بہت بڑا مافیا سر گرم عمل ہے جو کرپشن کا سارا ملبہ چھوٹے لیول پر ڈال کر خود کو کنارا کرتا ہے.
   کبھی یہ بحران چینی کی صورت میں سامنے آتا ہے کبھی گندم اور کبھی پٹرولیم کی مصنوعات کی شکل میں.

چینی کی شکل میں جو مصنوعی بحران پیدا کرکے  پاکستان میں بننے والی ستر روپے والی چینی کو پہلے درآمد اور بعد میں سبسڈی دے کر برآمد کیا گیا. جکمرانوں کی جانب سے اپنے خاص لوگوں کو نواز کر ان کے کالے دھن کو سفید بنایا گیا ساتھ ملکی سطح پر چھوٹے کاشتکاروں اور عوام کو مہنگائی کی جانب اور غربت کی جانب دھکیلا گیا.
    چھوٹے سے لے کر بڑے پیمانے تک ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی کیونکہ یہاں سب کے مفاد ایک دوسرے سے وابسطہ ہوتے ہیں.

صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم نے تو قیمتیں سستی کردی ہیں آگے عوام خود چور ہے, ایسا کہنے سے کیا انتظامیہ کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے .
سوچنے کی بات ہے کہ اگر چھوٹے پیمانے پر یہ سب ہورہا ہوتا تو اس کی روک تھام ضرور ہوتی مگر چھوٹے پیمانے پر ہی سہی اسے بڑے ہاتھوں کی سرپرستی ضرور حاصل ہے.
البتہ ایک بات کنفرم ہو ہی گئی ہے کہ جیسی عوام ہوتی ہے وہیسے ہی حکمران مسلط کیے جاتے ہیں .

ہم پر بھی اس وقت تین طرح کے عذاب مسلط ہیں ایک جانب کورونا کی وبا دوسری طرف ٹڈی دل کا حملہ اور تیسری جانب ہماری سمارٹ, پاک اور شفاف گورنمنٹ , جو پہلی دو عذابوں سے زیادہ مہلک ہے .اور  واقعی میں  جو کرپشن بھی یہ گورنمنٹ کررہی ہے اتنی شفافیت سے کررہی ہے کہ داد دینے کو جی کر رہا ہے .
ٹڈی دل کا تو معلوم نہیں مگر اگلے دو عذابوں کے ساتھ کم از کم ہمیں تین سال تک تو مزید گزارا کرنا ہی ہوگا �

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :