سردیوں میں بلوچستان کی خواتین اور بچوں میں صحت کے مسائل

ہفتہ 26 دسمبر 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو  پورے ملک  کا تقریبا  ترتالیس فیصد ہے . یہاں کی آبادی تقریبا ایک کروڑ سے اوپر ہے. اس کے سات ڈویژن اور تینتیس اضلاع ہیں. علاقائی لحاظ سے یہاں موسم میں تغیر بہت زیادہ ہے. ایسے اضلاع بھی ہیں جو ملک کے سرد ترین علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں جیسے قلات,  کوئٹہ اور زیارت جہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی گیارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے اور ایسے  علاقے بھی ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت پچپن سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے.

اسکول اور کالجوں میں سالانہ چھٹیاں بھی اسی لحاظ ہوتی ہیں.
بلوچستان قدرتی ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود مسائل کا گڑھ بن چکا ہے . یہاں بنیادی ضروریات زندگی کا فقدان ہے. صحت,  تعلیم,  سڑکیں, گیس, بجلی,  پانی اور پارک وغیرہ یہاں کے عوام  کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں. عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق باقی دنیا کی نسبت بلوچستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

یہاں کی 62 فیصد دیہی آبادی غربت کی لکیر سے  نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے .

ان مسائل کا اصل ذمہ دار کون ہے یہ ایک الگ بحث ہے. یہاں میں ذکر کروں گی صحت کے حوالے سے ان مسائل کا, جو سردیوں میں عوام کو درپیش ہیں وہ بھی خاص کر خواتین اور بچوں کو کیوں کہ جسمانی طور پر بچوں اور خواتین میں قوت مدافعت مردوں کی نسبت کم ہوتی . اس لیے وہ  بیماریوں کا شکار بھی نسبتا زیادہ ہوتے ہیں.
بلوچستان میں  کوئٹہ کو نکال کر گیس کی سہولیات باقی علاقوں میں موجود نہیں.  لوگوں کے لیے سرد حالات میں بغیر گیس کے گزارا کرنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے.  زیادہ تر لوگ  ایل پی جی گیس پر کھانا پکاتے ہیں اور سردیوں میں ہیٹر بھی ایل پی جی گیس اور بجلی کے استعمال ہوتے ہیں مگر بجلی کی سہولت بھی یہاں بہت کم لوگوں کو حاصل ہے وہ بھی سولہ سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کے ساتھ.  یہ تو بات ہے اس حلقے کی جو اتنی آمدنی رکھتے ہیں کہ یہ لگژری افورڈ کر سکیں.  مگر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لیے ان چیزوں کا تصور بھی نہیں.

ان کا گزارا لکڑیوں پر ہوتا ہے جنہیں جلا کر وہ اپنی گزر اوقات کر لیتے ہیں مگر اب مہنگائی نے ان کی کمر مزید توڑ دی ہے اور تیس چالیس لکڑیوں پر مشتمل  بار جو کبھی تین سو سے چار سو تک کا مل جاتا تھا اب دو ہزار سے اوپر تک پہنچ چکا ہے . یہ ساری تمہید اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس صورت حال کا بلاواسطہ یا بل واسطہ اثر لوگوں کی صحت پر بھی پڑتا ہے. سردیوں کے حوالے سے اگر صحت کے مسائل کو دیکھا جائے تو باقی علاقوں کی طرح یہاں بھی کم و پیش ایک جیسے حالات ہیں.
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی موسمی بیماریاں بن بلائے مہمان کی طرح چلی آتی ہیں.

سردیوں میں دھوپ کی کمی اور گھریلو معمولات کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی انسانی جسم کے دفاعی نظام کو کمزور کردیتی ہے. ان میں, الرجی , کھانسی نزلہ, زکام,  گلا خراب ہونا, بخار ,جوڑوں میں درد، ہاتھ پاؤں خاص طور پر انگلیاں ٹھنڈی ہو جانا، جِلد خشک ہوجانا، فلو کے ساتھ ساتھ دل کا دورہ، ہونٹوں پہ اور ان کے گرد چھالے اور الٹیاں شامل  ہیں۔
کورونا :
پچھلی سردیوں کی طرح اس سال بھی سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی کورونا کی دوسری لہر نے یہاں کی عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے .کم درجہ حرارت کورونا کے وائرس کے لیے زیادہ موافق ہے.

اس لیے سردیوں میں شرح بیماری اور شرح اموات میں باقی پاکستان کی طرح یہاں بھی دوبارہ اضافہ ہورہا ہے. مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی کورونا نے کافی متاثر کیا ہے.
متاثرہ مریضوں میں بخار, کھانسی, سانس میں تکلیف, بھوک کا نہ لگنا, منہ کا ذائقہ چلا جانا اور پھٹوں میں شدید درد کی شکایات  زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں. بچوں میں کورونا کی شرح نسبتا کم  ہے.
حفاظتی اقدامات:
کورونا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں.  غیر ضروری طور پر باہر جانے سے اور مصافحہ کرنے سے اجتناب کریں.

گھر سے باہر ماسک کا استعمال کریں. کسی بھی قسم کی علامات ظاہر ہونے پر اپنا معائنہ ضرور کروائیں.  اور مکمل علاج کے ساتھ گھر میں کم سے کم چودہ دن کے لیے کورینٹائن ہوں. قوت مدافعت بڑھانے کے لیے کھانے پینے کا خیال رکھیں اور ایسی غذا لیں جو متوازن اور غذایت سے بھرپور ہو.
  فلو، نزلہ ، زکام، کھانسی اور بخار:
موسم کے تغیر کے ساتھ ساتھ فلو,  نزلہ , زکام اور بخار کے حملے اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں .  سرد علاقوں میں بسنے والا کوئی بھی فرد اس وائرل فلو سے بچ نہیں پاتا.

کورونا کی طرح اس میں بھی قوت مدافعت کا اہم کردار ہے.اس وجہ سے بچوں میں صورت حال پیچیدہ ہوسکتی ہے. تیز تیز سانس چلنے کی علامت کے ساتھ  نمونیا یا ٹی بی کی پیچیدگی ہوجاتی ہے. جو کہ جان لیوا بھی ہوتی ہے. نمونیا پوری دنیا میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں  موت کا سبب بننے والی بیماریوں میں   پہلے نمبر پر ہے .
نظام تنفس یعنی سانس لینے کا نظام جو ناک,  سانس لینے والی نالی اور پھیپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے.  اس کا کام باہر کی صاف  آکسیجن پر مشتمل ہوا کو اندر لے جانا اور اندر کی نقصان دہ کاربن ڈائی آکسائیڈ والی ہوا کو باہر نکالنا ہے.  نظام تنفس اپر ریسپائریٹری ( ناک اور سانس والی نالی ) اور لوئر ریسپائریٹری سسٹم ( پھیپڑے) پر مشتمل ہوتا ہے.

الرجی, نزلہ اور زکام کی صورتحال میں عموماً نظام تنفس  کا اوپر والا حصہ متاثر ہوتا ہے. مگر  وائرل یا بیکٹیریل , انفیکشن , نمونیا, ٹی بی اور دمہ کی صورت میں مریض کے پھیپھڑے  بھی متاثر ہوجاتے ہیں. پچیس فیصد بچوں میں برونکائٹس کا خطرہ ہوسکتا ہے.
حفاظتی اقدامات:
عام علامات کی صورت میں  بچے کو باقی بچوں سے دور ایک صاف اور ہوا دار کمرے میں رکھیں.

اسے گرم کپڑے پہنائیں.  کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ ضرور دیں. اس دوران مائیں اپنے نوزائدہ بچوں کو چھ ماہ تک اپنا دودھ ضرورپلائیں اور چھ ماہ سے بڑے بچے کو  اپنے دودھ کے ساتھ  غذایت سے بھرپور ہلکی پھلکی خوراک شروع کریں. تیز بخار کی صورت میں نلکے کے پانی میں پٹیاں بگھو کر رکھیں ساتھ ہی پیناڈول یا بروفین کا شربت دیں.  12سال سے کم عمر بچوں میں اسپرین یا ڈسپرین نہ دیں کیونکہ یہ جگر اور دماغ کو متاثر کر سکتا ہے ۔ سردیوں میں زیادہ تر یہ وائرل ہوتا ہے.

وائرل انفیکشن میں اینٹی بائیوٹکس کا کوئی کردار نہیں.
اگر ہدایات پر عمل کرنے سے بچے کا بخار کم نہ ہو اور سانس میں رکاوٹ بد ستور قائم رہے تو پھر قریبی مرکز صحت میں بچے کا معائنہ ضروری ہے. ساتھ ہی حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرے. نمونیا سے بچاؤ کی ویکسین  Pneumococcal vaccines (PCV) ایجاد ہو چکی ہے ۔ تاہم تیسری دنیا کے ممالک میں ابھی تک مکمل طور شروع نہیں کی گئی ہے.
بڑے بچوں اور خواتین کے لیے اس حوالے سے شہد, کھجور  اور  مچھلی کا تیل نظام تنفس کے حوالے سے بہترین غذا ہیں.
کھانسی اور چھینک کا آنا ایک نعمت بھی ہے اس سے پھیپڑوں میں یا سانس کی نالی میں انفیکشن یا جمی ہوئی بلغم کو صاف کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ قوت مدافعت کا ایک بہترین نظام بھی ہے.

اس لیے باقی علامات کی غیر موجودگی میں کسی دوا کی ضرورت نہیں ہے. گرم پانی اور نمک کے غرارے کرنے یا پھر بھاپ لینے سے کھانسی دور ہو جاتی ہے. البتہ انفیکشن کی صورت میں بخار بھی ہوجاتا ہے تب دوا کی ضرورت ہوتی ہے. اسی طرح  زکام یا فلو میں جو کہ زیادہ تر وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے , دوائیوں کا کوئی خاص کردار نہیں.  بھاپ لینا, وٹامن سی ,سوپ  اور جوشاندہ وغیرہ کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے صورت حال ممکنہ حد تک کنٹرول کی جا سکتی ہے.

ناک میں ڈالنے والی یا بند ناک کھولنے والی دواؤں سے  پرہیز کریں کیونکہ اس سے بلڈ پریشر اور خون کی نالیاں سکڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
دمہ :
سردیوں میں خشکی بڑھ جاتی ہے اور ہوا میں نمی کا تناسب کم ہوتا ہے. اس وجہ سے ہوا میں زیادہ تر الرجی کرنے والی اشیاء مثلاً گرد، ہاؤس مائٹ، پولن گرین آسانی سے شامل ہوجاتی ہیں .کھانے پینے کی اشیاء کی وجہ سے بھی الرجی ہوجاتی ہے یا پھر انفیکشن کی وجہ  سے سانس کی نالیوں میں بلغم جمع ہوجاتا ہے.

اس کے علاوہ لکڑیوں کے دھوئیں اور آلودگی کی وجہ سے بھی دمہ ہوسکتا ہے.
حفاظتی اقدامات :
دمہ سے بچاؤ کا بہترین علاج  الرجی کرنے والے  عناصر سے مکمل پرہیز ہے. زیادہ سردی میں گھر ہی پر رہنا چاہئے۔ باہر جانا انتہائی ضروری ہو تو ناک اور منہ کو سکارف سے ڈھانپ لینا چاہئے اور ساتھ ہی مریض دوا یا پمپ کا استعمال جاری رکھنا چاہیے۔
ایکزیمہ اور زیروسس :
جلد کے حوالے سے دیکھا جائے تو سردیوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے جلد میں خشکی بڑھ جاتی ہے اس حالت میں جلد خشک اور خارش زدہ ہوجاتی ہے .

اسے ایکزیمہ کہتے ہیں جو کہ ایٹوپک بھی ہوسکتی ہے . ایٹوپک ایکزیمہ کو موروثی بھی کہہ سکتے ہیں. اگر کسی کے والدین کو یہ بیماری رہی ہو وہ بچوں میں بھی دیکھنے میں آتی ہے.  اس صورت  میں جلدی علامات کے ساتھ الرجی اور دمہ کی بھی شکایت ہوتی ہے.  سردیوں میں  مرض دوبارہ ہوسکتا ہے یا پہلے سے متاثرہ مریض کی حالت بگڑ بھی سکتی ہے.
حفاظتی اقدامات :
جِلد کو خشکی سے بچانے کے لئے، زیادہ گرم پانی سے نہیں نہانا چاہئے.

اور دوسرے اوقات کے ساتھ ساتھ نہانے کے فورا" بعد جِلد کو نمی پہنچانے والی کریم اور لوشن لگانی چاہئے۔ مرض بگڑنے کی صورت میں علاج شروع کرنا چاہیے.
جوڑوں کا درد:
زیادہ تر لوگوں میں  سردیوں میں جوڑوں میں درد اور اکڑن بڑھ جانے کی شکایت عام ہے. یہ وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے .
حفاظتی اقدامات:
ایسے مریضوں کو زیادہ سے زیادہ گرم رکھنا چاہیے.

درد کی گولیوں کے ساتھ ساتھ.  وٹامن اور کیلشیم کی گولیاں اور  غذایت سے بھرپور غذا نہایت ضروری ہے.
دل کا دورہ:
دل کا دورہ موسم سرما میں  بہت عام ہے۔ اس موسم میں بلڈپریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے دل پر منفی اثرات پڑتے ہیں  اور دل کا دور ہ بھی ہوسکتا ہے۔
حفاظتی اقدامات:
کمرے کو گرم رکھنا چاہیے.

اس کے لیے کمرے کا اندرونی درجہ حرارت اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر رکھنا ضروری ہے. باہر جاتے وقت خود کو حتی الامکان گرم رکھیں.  اونی گرم ٹوپی، مفلر، اسکارف، ہاتھوں کے گرم دستانے اور موزے ضرور پہنیں۔
ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا ٹھنڈا ہونا:
سرد اور برف باری والے علاقوں کے مکینوں میں یہ بیماری بہت دیکھنے میں آتی ہے.

شریانوں کے سکڑنے کی وجہ سے انگلیوں میں خون کی فراہمی بہت کم ہوجاتی ہے .  انگلیوں کی رنگت پہلے سفید، پھر نیلے اور آخر میں سرخ رنگ کی ہونے لگتی ہیں. ساتھ ہی شدید درد بھی محسوس ہوتا ہے.
حفاظتی اقدامات:
اس شکایت سے بچنے کے لئے گرم دستانے اور موزے مدد گار ثابت ہوتے ہیں اور ساتھ ہی تمباکو اور کیفین کا استعمال ترک کرنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :