تحریک لبیک کے بیانیے کی فتح

ہفتہ 13 فروری 2021

Engineer Muhammad Abrar

انجینئر محمد ابرار

 اللہ تعالی نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بے مثل و بے مثال پیدا فرمایا ہے.آپ کی ذات  رحمت للعالمین ہے اور زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ یے. آپ کی زندگی میں گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انجام قتل کے واقعات بھی ملتے ہیں. دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فتح مکہ والے دن رسول اللہ نے تمام لوگوں کی عام معافی کا اعلان فرمایا مگر گستاخ شخص کعبہ کے غلاف میں بھی لپٹا ہوا  نہ بچ سکا.

(جاری ہے)

حضرت علی سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس نے کسی نبی جو گالی دی اسے قتل کیا جائے گا"  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص لایا گیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا تھا تو آپ نے فرمایا "جس نے اللہ کو یا انبیائے اکرام میں سے کسی جو گالی دی تو اسے قتل کر دیا جائے". امام مالک کا فرمان ہے "اگر رسول اللہ کی شان میں گستاخی ہو اور امت اس کا بدلہ نہ لے سکے تو ساری امت مر جائے".

چند ماہ قبل فرانس کی عمارت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے دکھائے گئے.یہ واقع اس وقت پیش آیا جب فرانس کے ایک سکول میں سیموئل پارٹی نامی ہسٹری کے استاد نے اپنی ایک کلاس میں آزادی اظہارِ رائے پر طلباء کو لیکچر دیتے ہوئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون معاذ اللہ پروجیکٹر پر دکھائے. سیموئل کو ایک طالب علم نے واصل جہنم کیا جس کے بعد فرانس کے صدر نے سرکاری عمارت پر ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے آویزاں کئے.

ایک خاکے میں ٹوائلٹ پیپر کے تین رول دکھا کر ان کو بالترتیب بائبل، قرآن اور زبور کا نام دیا گیا. اس واقعہ کے بعد پورے عالم اسلام میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی اور کئی اسلامی ممالک میں عوام نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے محبت کا ثبوت دیا.  سلطلنت عثمانیہ کے دور میں اگر کسی جگہ مسلمانوں کے عقائد و نظریات پر حملہ ہوتا تو وہ حملہ پورے عالم اسلام پر تصور کرتے ہوئے سلطنت عثمانیہ اس کا جواب دیتی تھی سلطنت کے ختم ہونے کے بعد یورپ نے پھر پرانی روش پر چلتے ہوئے گستاخی کی ناپاک جسارت کی ہے.ترک صدر رجب طیب اردگان نے فرانسیسی صدر کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یہ دماغی مریض ہے اسے دماغی علاج کی ضرورت ہے.  اس بیان کے بعد فرانسیسی صدر نے رد عمل دیتے ہوئے ترکی میں موجود سفیر کو واپس طلب کر لیا.

کویت سمیت کئی ممالک نے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا اور اپنے سپر سٹورز سے فرانس کی تیار کردہ مصنوعات ہٹا دیں. دنیا کے واحد ایٹمی ملک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے فقط فرانس کے صدر کو لوگوں کو تقسیم نہ کرنے اور انتہاپسندی کو ہوا نہ دینے کا کہہ کر نیلسن منڈیلا کی مثال دے کر اسی پر اکتفا کیا. وزیر اعظم کا یہ بیان پاکستانی عوام کی امنگوں کے عین منافی تھا اور لوگوں میں شدید غصہ پایا جا رہا ہے.

وزیر اعظم صاحب اپنے سیاسی مخالفین کو تو منہ ہر ہاتھ پھیر پھیر کر واپس لانے اور احستاب کی دھمکیاں دیتے رہے مگر وجہ تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پر ایک مردانہ بیان نہ دے سکے جو ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر اب بھی موصوف ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار ہیں. وزیر اعظم کی شان میں توہین پر تو ایکشن لیا جاتا ہے مگر عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کے وزیر اعظم عمران خان امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد فوراً جلد صحتیابی کی دعائیں دیتے تو نظر آتے ہیں مگر گستاخی کے رد عمل میں تین دن گزر جانے کے بعد اتنا مصلحت پسندانہ رد عمل کیوں دیتے ہیں؟ پالیمنٹ کا اجلاس اس معاملے پر طلب کیا جاتا ہے جس میں بھی مقتدر ارکان و اپوزیشن سیاست کرتی نظر آتی ہے جس کے نتیجے میں ڈپٹی سپیکر کو اجلاس 10 منٹ کے لئے موخر کرنا پڑتا یے بعد ازاں فقط ایک قرار داد منظور کر لی جاتی ہے جس کی یورپ کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں.کیا ہماری غیرت ایمانی ختم ہو چکی یے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے حساس مسئلہ پر بھی ہمارے حکمران ایک پیج پر نظر نہیں آتے.

بجائے عالم کفر کو للکارنے کے وہ فقط اپنے آقاؤں کو خوش کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں. اس ساری صورت حال میں علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے فرمایاتھا کہ ایٹم بم باہر نکالیں دشمن کو للکاریں یہ کس لئے ہم نے رکھا ہوا یے. ساتھ ہی انہوں نے حکومت وقت کو وارننگ دیتے ہوئے مجلس شورہ کا اجلاس بلوا پر فرانس کے مسئلہ پر اگلا لاحہ عمل طے کرتے ہوئے لیاقت باغ تا فیض آباد مارچ کا فیصلہ کیا.

حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور ناموس رسالت کے پروانوں پر لیاقت باغ سے فیض جاتے ہوئے آنسو گیس کے ہزاروں شیل برسائے گئے. نومبر کی سخت سردی اور بارش بھی ناموس رسالت کے پروانوں کے حوصلے پست نہ کر سکی. ساری رات آپریشن اور شیلنگ کی جاتی رہی بعدازاں حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت تین ماہ کے عرصہ میں حکومت نے فرانیسی سفیر کو ملک بدر کرنا تھا.حکومت نے ہمیشہ کی طرح ہٹ دھرمی سے کام لیا اور معاہدہ پر کسی قسم کا عمل نہ کیا.

نو منتخب امیر علامہ سعد حسین رضوی نے رضوی صاحب کے چہلم پر حکومت وقت کو واضح پیغام دیا کہ ہم 16 فروری تک اپنے معاہدے کے پابند ہیں اسکے بعد ہم ہر صورت لائحہ عمل تیار کر کہ معاہدہ فیض آباد پر عمل کروائیں گے. جوں جوں 16 فروری نزدیک آتی گئی حکومتی ایوانوں میں بے چینی بڑھتی گئی اور ایک مزاکراتی ٹیم نے تحریک لبیک سے مزاکرات شروع کئے. پہلے پہل حکومتی لوگ تحریک لبیک کو معاہدہ سے پیچھے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے مگر جب ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو آخر کار انہوں نے تحریک لبیک کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے تاریخ میں توسیع کی استدعا کی اور مزید وقت مانگا.

کسی کو NRO نہیں دوں گا کہنے والے وزیر اعظم کے وزیر یہاں خود NRO مانگتے نظر آئے. تحریکی قائدین کی جانب سے یہ شرط رکھی گئی کہ اگر وزیراعظم اس کا خود اعلان کرے تو ہم اس بات پر راضی ہیں.لہذا معاملات خوش اسلوبی سے طے پاگئے اور وزیر اعظم نے گزشتہ روز اپنے انٹرویو میں اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا جو کہ تحریک لبیک کے بیانیے کی واضح فتح کی دلیل ہے.

نئے معاہدے کے تحت 20 اپریل تک حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جا کر اسکی منظوری لے گی. یوں پالیمنٹ کی وہ کالی بھیڑیں جو ووٹ مسلمانوں سے بٹورتی ہیں اور مغربی آقاؤں کو خوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی وہ  بے نقاب ہوں گی. وہاں سے سب کو معلوم ہو جائے گا کہ کون محافظ ناموس رسالت ہے اور کون غدار ناموس رسالت ہے. PDM کے افراد بھی 17 فروری کا انتظار کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ حکومت و تحریک لبیک کے مابین معاہدہ فیض آباد کو لے کر معاملات خراب ہوں.

حکومت کریک ڈاؤن یا اس قسم کا کوئی ایکشن لے تو ہم سانحہ مچھ کی طرح یہاں بھی اپنی سیاست چمکائیں.کچھ عناصر سوشل میڈیا پر تحریک لبیک کے نوجوانوں کو نئے معاہدہ کی تاریخ اجراء 11 جنوری کو لے کر مشتعل کرتے نظر آئے جس کی وضاحت علامہ شفیق امینی نے نیشنل میڈیا پر آ کر دی کہ یہ ٹائپنگ کی غلطی ہے معاہدہ 11 فروری کو طے پایا یے. نومنتخت امیر علامہ سعد حسین رضوی نے عظیم فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف وزیراعظم کو معاہدہ میں ڈائریکٹ شامل کرتے ہوئے ان سے اعلان کروایا ہے بلکہ ان عناصر کو بھی شکست دی ہے جو خون خرابہ اور ذاتی سیاست چمکانے کے خواہاں تھے .یوں تحریک لبیک کے ناموس رسالت کاز کے بیانیے کو ایک بار پھر فتح نصیب ہوئی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :