عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

ہفتہ 6 نومبر 2021

Esha Saima

عیشا صائمہ

9 نومبر کو ہندوستان میں ایسا ستارا چمکا. جس نے اپنے علم کی روشنی سے مسلمانان ہند میں ایسی روح پھونکی. جس نے برصغیر پاک و ہند کا نقشہ بدل دیا. ان کے خواب کی تکمیل ہوئی اور مسلمان اپنا الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے. یہ شخصیت علامہ اقبال کی تھی. جنہیں ہمارے قومی شاعر کا اعزاز بھی ملا.
ان کی شاعری نے نوجوانوں میں شعور بیدار کر کے انہیں خواب غفلت سے جگایا .

اسوقت کے شاعروں میں علامہ اقبال کی شاعری عمل اور کردار کا سبق دیتی ہوئی نظر آتی ہے. آپ نے اپنی شاعری میں اک پیغام دیا. جس نے مسلمانان ہند میں اک نئ روح پھونکی. ان کے جذبہء ایمانی کو تقویت دی. کیونکہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کا پیغام دیا. اور اسلام عمل پر زور دیتا ہے.

(جاری ہے)

اسی چیز کو آپ کی شاعری میں بیان کیا گیا ہے.
آپ کا کہنا یہی ہے کہ انسان کا علم بنا عمل کے کچھ نہیں.

جو انسان علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کرتا ہے. وہ نہ صرف دنیا میں کامیاب ہوتا ہے.بلکہ آخرت میں بھی اسے کامیابیاں نصیب ہونگی. وہ فرد یا قوم جس کی زندگی عمل سے خالی ہے. اس کی حیثیت لفظ بے معنی اور ایک جسم بے روح کی مانند ہے. اسی لئے عمل کے بنا باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں. حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کو دیکھا جائے تو اعلیٰ اخلاق و عمل کی مثال ملتی ہے.

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا اعلیٰ اخلاق وکردار سب کے سامنے پیش کیا. اسی لئے اسلام تیزی سے پھیلا. علامہ اقبال نے بتایا کہ اصل چیز کردار ہے. گفتار کا حسن بے مقصد و بے معنی ہے. اگر اس کے ساتھ کردار کی خوبی شامل نہ ہو.
مثبت عمل سے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں. کیونکہ زندگی مسلسل کوشش سے عبارت ہے. انسان اگر مسلسل جدوجہد کرتا رہے.

تو اک جوش و ولولہ ان کے اندر جانگزین رہتا ہے. کیونکہ قومیں تبھی عروج کی منزلیں طے کرتی ہیں. جب وہ جوش و جذبے سے آگے بڑھتی ہیں. جو قومیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہیں. حسرت اور مایوسی ان کا مقدر بن جاتی ہے. اس لئے   سیرت و  کردار کو اپنا شعار بنا کر آگے بڑھنا چاہیے. کیونکہ صرف گفتار کے غازی قوموں کی تقدیر نہیں بدل سکتے.
جو قومیں سہل پسندی اور عیش و عشرت میں پڑ جاتی ہیں.وہ کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتیں.

بلکہ وہ یوں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں جیسے کبھی ان کا وجود تھا ہی نہیں.
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اس کے برعکس وہ قومیں زندہ و جاوید نظر آتی ہیں. جنہوں نے عمل کو اپنایا. اپنا اعلیٰ اخلاق و کردار، لوگوں کے سامنے رکھا. ایسی قوموں کا تذکرہ نہ صرف تاریخ اچھے انداز میں کرتی نظر آتی ہے.

بلکہ ان قوموں کے عروج کی مثال کہیں نہیں ملتی.جیسے  عرب جب اسلام کی اشاعت کے لئے نکلے. تو وہ ایمان کی دولت اور عمل کی خوبصورتی کو لے کر چلے. اسی خوبصورت امتزاج نے ان کی راہوں کو روشن کیا. اور وہ جہاں گئے اسلام کی شمعیں جلاتے گئے.
ان کی یہی سیرت تھی جس نے پتھر دلوں کو موم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں اسلام پھیل گیا. آج بھی تاریخ ان باعمل انسانوں کا نام نہایت ادب و احترام سے لیتی ہے.

آج بھی وہی قومیں کامیاب ہیں. جنہوں نے اسلام کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑا ہے اور، اس پر سختی سے عمل پیرا ہیں.
وقت اسی تیزی سے گزر رہا ہے تاریخ رقم ہو رہی ہے. زمانہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے. وقت کسی کے لئے نہ رکتا ہے. نہ اپنے انداز بدلتا ہے. وہ فرد اور قومیں ہی کامیابی اور ترقی کے زینے چڑھ سکتی ہیں. جو وقت اور حالات کے تقاضوں کو پورا کرتی نظر آتی ہے.

جو قومیں عیش پرستی اور سہل پسندی کو اپنالیتی ہیں. عمل سے خالی ہو جاتی ہیں. وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتیں. وہ پیچھے رہ جاتی ہیں. کوئی مڑ کر ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا.
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے. کہ ہم بحیثیت قوم اپنے فرض کو مقدم سمجھیں. وقت کے تقاضوں کا خیال رکھیں،ہوا کا رخ پہچانیں، اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اک بامقصد جدوجہد کے لئے وقف کریں.

تاکہ دنیا میں اک عظیم قوم بن کر ابھر سکیں. کیونکہ بامقصد جدوجہد سعادت ہے. اور اس  راہ میں جان لٹا دینا شہادت. آج ہمیں اسی جذبے کی ضرورت ہے. کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں. اپنی سمت کا صحیح تعین کریں. ہمارے اندر ایک لگن، اک تڑپ ہو. یہی لگن اور تڑپ ہمیں منزل تک پہنچائے گی. اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرتی جائے گی. جب تک کسی قوم میں سچی لگن، جوش و جذبہ کارفرما نہیں ہو گا.

وہ ترقی کے زینے نہیں چڑھ سکتی. اس لئے ہمیں اپنے آباؤاجداد کی خوبیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے. جو ان کا خاصا رہیں. جن پر چل کر انہوں نے صحرا کو گلستان بنایا.
ہمیں بھی ان راہوں پر چل کر اپنے راستے کے کانٹے ہٹانے ہیں، اپنے عمل کو اسی خلوص سے آراستہ کرنا ہے جس سے ہماری منزلیں آسان ہو جائیں. کیونکہ عمل کا خلوص ہی وہ طاقت اور نعمت  ہے جس سے ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں.

اپنی اور پاکستان کی بقا کے لئے خالص عمل، بھرپور جدوجہد اور جوش وجذبے کی ضرورت ہے. اس کے بنا ہم راہ میں بھٹک کر منزل سے دور ہو جائیں گے. اس لئے مسلسل کوشش کو اپنا شعار بنانا ہے.
اور باعمل مسلمان بننا ہے. کہ تاریخ ہمارے آباؤاجداد کی طرح ہمیں بھی یاد رکھ سکے. اور ہم اپنے سیرت و کردار سے ثابت کر سکیں. کہ ہم بھی تابناک مستقبل کے امین ہیں.
ورنہ ہمارے لئے بے عملی موت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :