کھیل و تفریح اور اسلام ۔ قسط نمبر 1

جمعہ 19 فروری 2021

Faiza Khan

فائزہ خان

تفریح عربی زبان کا لفظ ہے، جو ” فرح“ سے مشتق ہے۔ جس کے بارے میں علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ:
”محبوب چیز کے پالینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے اسی کو فرحت اور خوشی(فرح) کہتے ہیں۔“ (تفسیر قرطبی) ۱ #
 چنانچہ لفظ تفریح کے معنی دل بہلانے، ہوا خوری، اور فرحت وخوشی حاصل کرنے کے ہیں ۔ ۲ # تفریح کے متعلق امریکی تحقیقی رپورٹ کہتی ہے کہ :
 ”اپنے معمولات سے کچھ وقت تفریح کے لیے مختص کرنا آپ کو جسمانی تھکاوٹ ،ڈپریشن ،قلبی عوارض سے نجات اور ذہنی سکون فراہم کرسکتا ہے۔

ُُ“
ہر انسان خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو اسے دن بھر کے امور کی انجام دہی میں تھکن اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بعض اوقات تو لوگوں کے منفی رویے اور زندگی کے کسی مرحلے میں پیش آنے والے حادثات یا غموں سے بھی انسان سخت ذہنی دباؤ اور کوفت کا شکار ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

جس سے چھٹکارے کے لیے فطری طور پر انسان سیر و تفریح کا سہارا لیتا ہے۔

۳ # مگر یاد رہے کہ تفریح کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے کہ انسان Stress اور Depressionسے فرار حاصل کرے،یہ انسان کی مجبوری ہے ،شوق یا مطلوب نہیں۔
تفریح کے حوالے سے عصرِحاضر کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آج نسل نو میں تفریح کا تصور ،مذکورہ وضاحت کے بلکل برعکس پایا جا رہا ہے ۔آج کھیل و تفریح کو مجبوری نہیں بلکہ اسے زندگی کا اہم مقصد بنا لیا گیاہے ۔

آج نوجوان نسل کھیل و تفریح کے لئے جو مشاغل و سرگرمیاں اپنا رہے وہ ان کی فکری ترقی میں رکاوٹ، انکے لئے جسمانی و نفسیاتی اور روحانی لحاظ سے نقصان ،اورانکی اخلاقیات پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بن رہے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان مشاغل سے تھکان تو دور نہیں ہوتی البتہ انسان مزید Stress اورDepressionکا شکار ہو جاتاہے ۔ چنانچہ ایسے امور کو اسلام تفریح سے نہیں بلکہ لہو و لعب اور لغوسے تشبیہ دیتا ہے ۔

اسلام بے مقصدتفریحی امور و عوامل کی نفی کرتا ہے کیونکہ انسان کو زندگی بہت مختصر ملی ہے اگر وہ اس کا بڑا حصہ تفریح کے حصول میں گزار دے اور وہ بھی ایسے مشاغل کے ذریعے جو اسے ذہنی ،جسمانی اور روحانی طور پر بیمار و معزور کردے، جس کے نتیجے میں وہ نہ دنیاوی امور میں اپنی صلاحیتوں کو کارآمد بنا سکے اور نہ ہی دینی امور میں کارآمد اور کامیاب ہو سکے اور جس سے دوسروں کو بھی فائدہ نہ پہنچے ،تو وہ اُس اصل مقصد حیات کی تکمیل کو کیسے پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے چُنا ہے ۔


اسلام ایک با مقصد زندگی گزارنے پر زور دیتا ہے جس میں زندگی کے قیمتی وقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے ۔ اسلام زور دیتا ہے کہ انسان اپنے لمحات زندگی ایسے کاموں میں صرف کرے جس میں دنیا وآخرت کا فائدہ یقینی ہو، ورنہ پھر کم ازکم دنیا و آخرت کا خسارہ نہ ہوتا ہو ۔ چنانچہ قرآن پاک میں جگہ جگہ اللہ ربُّ العزت نے اپنے موٴمن بندوں کی صفات میں سے ایک اس صفت کابھی بیا ن کیا ہے کہ وہ ایسے بے مقصد امور سے خود کو بچاتے ہیں، سورة الموٴمنون # ۳ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ :
”اور یہ وہ لوگ ہیں جو لغو( یعنی فضول) باتوں سے اعترض کرتے ہیں۔


 اورسورة الفرقان # ۷۲ میں ارشاد باری تعالی ہے:
 ”جب یہ لوگ لغو (فضول ) چیز یا باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔“
موٴمن کی اسی صفت کو حدیث میں” حسنِ اسلام“ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ :
 ”آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لا معنی (بے مقصد و بے مطلب) امور ترک کردے۔

“ ( ا بنِ ماجہ، ترمذی،مسندِ احمد )
یہ لا معنی امور وہی ہیں جنہیں اسلام نے لہو ، لعب اور لغو کے الفاظ سے بیان کیا ہے ۔” لہو “سے مراد ہر وہ چیز جو انسان کو قابل اہم امور سے غافل کردے ۔ ۴ # حدیث میں آتا ہے کہ :
 ”ہر لہو جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل کردے تو وہ باطل ہے یعنی گناہ ہے۔“ (بخاری)
فتح الباری میں حافظ ابنِ حجر اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
 ”اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی بھی چیز میں ایسی مشغولیت اختیار کرے جس سے (فرائض سے)غفلت پیدا ہوجائے خواہ وہ چیز شرعاً جائز ہو یا نا جائز۔

مثلاً کوئی شخص عمداً نفل نماز ، تلاوتِ قرآن ، ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہا کہ فرض نماز کا وقت نکل گیا تو وہ بھی اس ضابطے کے تحت داخل ہے (یعنی ایسی صورت میں یہ نفل عبادت بھی لہو میں داخل ہوگی۔ کیونکہ اس نے فرض نماز سے غافل کر دیا ہے ) جب نفلی عبادت کا یہ حال ہے جن کے فضائل وارد ہیں اور شرعاََ مطلوب بھی ہوتی ہیں تو پھر اس سے کم درجہ کی اشیاء (افعال و اعمال اور امور) کا کیا حکم ہوگا ؟ (یعنی جائز امور و اشیاء تو بطریق اولیٰ نا جائز ہوں گی جبکہ وہ انسان کو حقوق و فرائض کی ادائیگی سے غافل کردیں ۔

“ ۵ # ”لعب “سے مراد ہر وہ کھیل یا امر جو بلا کسی صحیح مقصد کے انجام دیا جائے اور ” لغو “سے مراد ہر نکمّی (فضول) بات اور ہر نکمّے فعل کو کہا جاتا ہے جس میں گانا باجا ، راگ رنگ وغیرہ جیسی بیکار باتیں شامل ہوں۔ ۶ # اوراسلام ان تینوں اقسام پر مشتمل امور و افعال کی ممانعت کرتاہے ۔ (جاری ہے)
حوالہ جات:
 ۱ # بحوالہ: ”تفریح اور کھیل کود کے جائز و سائل اور اسکے شرعی ضابطے“ از مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی۔

ماہنامہ دارالعلوم دیوبندالہند۔
اکتوبر/نومبر،۲۰۱۲ء
 ۲ # فیروز الغات اردو جامع۔ الحاج مولوی فیروزالدّین۔فیروزسنز پرائیوٹ لمیٹڈ
 ۳# سنت نبویﷺ اور جدید سائنسی تحقیقات۔محمد انور بن اختر۔ ادارہ اشاعت اسلام،کراچی۔۲۰۰۹ء ۔ ج: اوّل ، ص: ۲۰۷
۴# کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔ مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔جون،۱۹۹۴ء ۔ص: ۱۱،۱۲،۱۳
 ۵# ایضاً۔ ص: ۴۳
۶# ایضاً۔ ص: ۱۱،۱۲،۱۳

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :