غیر سیاسی تحریر

بدھ 12 فروری 2020

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

زمانہ قدیم کی بات ہے دور افادہ گاوّں میں ایک شخص داخل ہوا۔ چونکہ گاوّں کے لوگ سیدھے سادھے تھے لہذا کسی نے اس سے نہیں پوچھا کہ وہ چپ چاپ کسی کونے میں پڑگیا۔ محلے کے چند افراد کھانا پینا دے جاتے وہ شخص کبھی کبھار آتے جاتے بچوں کو کچھ دے دیتا اور بسکٹ وغیرہ سے ان کی تواضح کرتا اسی محبت اور انسیت میں محلے کی بزرگ، خواتین اور بچوں میں اس کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔

لوگوں کا بڑھتا ہوا ہجوم دیکھ کر اس نے سوچا کہ کیوں نا لوگوں کے مسائل پوچھے جائیں۔ اہل علاقہ کے لوگوں نے بتایا کہ کچھ خاص نہیں بس عرصہ دراز سے گاؤں کے پار سے کچھ ڈاکوآجاتے ہیں اور یہاں کے مالدار افراد سے اناج اور رقوم لے کر چلے جاتے ہیں۔چونکہ وہ شخص دانا تھا لہذا کہنے لگا کے میں ان لٹیروں سے آپ سب کو محفوظ رکھ سکتا ہوں۔

(جاری ہے)

۔ بس یہ کہنا تھا کہ یہ خبر آنآ فانآ پورے گاؤں سے نکل کردور دراز گاؤں تک پہنچ گئی۔

لوگوں کا جم غفیر اس نئے خیرخواں کے گرد اکھٹا ہونا شروع ہوگیا۔تو اس نے نعرہ لگا دیا نہیں چھوڑوں، نہیں چھوڑوں گا، نا صرف ان ڈاکوؤں سے آپ کو چھٹکارا دلاؤں گا بلکہ آپ لوگوں کی لوٹی ہوئی دولت بھِی واپس کروا سکتا ہوں۔
 بس اس شیخ چلی نے اپنا داؤ بھولی بھالی عوام پر چلا دیا۔۔ ہوتے ہوتے اس شیخ چلی کے مداح پورے ملک پھیل گئے۔۔ ڈاکو نے بھِی یہ خبر سنی اور کسی رات چپکے سے اس شیخ چلی کو اٹھا لیا۔

۔ جنگل میں ہماری پولیس کی طرح روایتی طریقے سے آوّبھگت کی جب شیخ چلی کی طبیعت صاف ہوئی تو اس نے بتایا کے بھائی میں تو صرف جگت کر رہا تھا۔ چونکہ مفلس تھا اسی لئے جگت چھوڑی۔۔۔ خیر میں آپ لوگوں کے لئے مخبری کا کام سر انجام دے سکتا ہوں۔
عہد و پیماں اور دستی دستخط کے بعد شیخ چلی کو چھوڑ دیا گیا۔۔۔۔ہوتے ہوتے خبر بادشاہ کے محل تک جاپہنچی۔

۔ بادشاہ نے دربار میں طلب کیا اور کہا شیخ چلی تم ہماری رعایا کو کیا پٹی پرھا رہے ہو۔۔ شیخ چلی نے عرض کی بادشاہ سلامت میں جو کہہ رہا ہوں بالکل سہی کہہ رہا ہوں۔میرے پاس وہ صلاحیتیں ہیں جو آپ کے مشیر خاص کے پاس بھی نہیں ہوں گی۔ بادشاہ نہایت مرعوب ہوا اور محل میں خاص مقام عطا کر کے تعینات کر دیا۔
چونکہ شیخ چلی اپنی جگت مار کے پھنس گیا تھا لہذا لوگوں نے اور بادشاہ کے سپہ سالار نے اس بابت دریافت کیا کہ آپ کے پاس کون کا ایسا آلہ ہے جس کی بدولت ان لیٹروں سے جان بخشی ہوسکتی کہ ہماری سلطنت کی فوج نہیں کرپائی۔

شیخ چلی نے عرض کی جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔۔۔ میں تو ایک نیا فارمولہ لایا تھا جو چل گیا۔ اسی کی بدولت میں اس مسند خاص پر بیٹھا ہوں۔سپہ سالار دانا تھا کہنے لگا کہ اس سے تو بادشاہ سلامت کی حیثیت اور مشکوک ہوجائے گی کیونکہ انہوں نے تم کو ایک خاص مقام عطا کر دیا ہے اور رعایا میں یہ خبر بھِی پھیل چکی ہے کہ شیخ چلی ہماری ان راہزنوں اور لیٹروں سے امان دلوائے گا۔

۔
 شیخ چلی نے عرض کی جی عالی پناہ میں ان لٹیروں سے واقعی جان چھڑوا سکتا ہوں کہ ان لیٹروں کو بھِی بلا کر اپنے مشیروں میں شامل کر لیں اور رعایا پر مزید ٹیکس بڑھا دیں کہ ہم نے ان کی حفاظت اور ان کی بقاء کے خاطر ایک بڑی حکمت عملی تیار کر رکھِی ہے۔ بھولی بھالی رعایا باتوں میں آگئی بادشاہ کے اس اقدام کو بہت سراہا۔
ایک دن بادشاہ نے شیخ چلی کو اپنے پاس بلا کر کہا ہم مان گئے تمہاری دانشمندی کو۔۔ہماری رعایا نے اس فیصلے کو خوب سراہا اور بخوشی نئے ٹیکسز کو بھی قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا مال و متاع بھِی خزانے میں جمع کروا دیا ہے۔ اب سارے لیٹرے ہماری حکومت کا حصہ ہیں جب تک رعایا کو عقل آئے گی ہماری حکومت چلتی رہے گی۔باقی بعد میں تم پھر نئی جگت چھوڑ دینا۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :