صحافیوں کی اقسام

اتوار 11 اکتوبر 2020

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

ویسے تو ہر شخص کو معلوم ہوگا کے چار قسم کے موسم ہوتے ہیں جس میں سردی ، گرمی ، خزاں و بہار کے حساب سے تقسیم کی گئی ہے اور موسم کی مناسبت سے مارکیٹ میں پھل اور سبزیاں بھی دستیاب ہوتیں ہیں اسی تناظر میں عام فرد جب صحافیوں کی درجہ بندی کرتا ہے تو اسے صرف یہ دکھتا ہے کہ یہ اسپورٹس رپورٹر ہے، یہ اسٹاف رپورٹر ، یہ کرائم رپورٹر ہے، یہ جنرل رپورٹر یا سیاسی جسے پولیٹیکل رپورٹر کہا جاتا ہے اگر مذید برانچز کھولی جائیں تو علاقائی رپورٹر، صوبائی رپورٹر اور اورسیز رپورٹر وغیرہ وغیرہ ہوتے ہیں۔

جن میں ڈمی اخبارات کا زکر نا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تاکہ چند احباب کی ناراضگی کا متحمل کا ہوسکوں۔ بہرحال ذکر صحافیوں کا ہورہا ہے تو چاہے کسی بھی کیٹگری کے ہوں خوب سے خوب تر کی تلاش کا مادہ کارفرما رہتا ہے جن میں اکثریت واٹس گروپ تک محدود رہنے والے صحافیوں کی ہوتی ہے جو شوقیہ یا دوستی یاری میں کسی نیوز گروپ کو جوائن کر لیتے ہیں اور اپنے حلقہ احباب میں دھاک بھٹانے کے لئے کاپی پیسٹ کر کے من و عن آگے فاروڈ کرتے رہتے ہیں جب تھوڑی واہ واہ ہونے لگے تو اپنا الگ سے نیوز کا واٹس اپ گروپ بنا ہر خاص و عام خواں متعلقہ ہو یا غیر متعلقہ ایڈ کر کے ایڈمن کی سیٹ سنبھال لیتے ہیں اور کسی صحافی سے گزارش کی جاتی ہے کے گروپ میں نیوز اپڈیٹ کرتے رہا کریں۔

(جاری ہے)

دوسری اقسام کے صحافی خواں زندگی کے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہوں خاندان اور جان پہچان کے معززین میں اپنا وقار اور دبدبہ قائم رکھنے کے لئے کسی بھِی اخبار خواں وہ روزنامہ ہو، ہفت روزہ ہو،پندرہ روزہ ہو، ماہانہ ہو یا سہہ ماہی اخبار یا میگزین ہوجسے مارکیٹ ڈھونڈنے جاوّ تو ملتا نہیں بیجنے جاوّ جو بکتا نہیں کے مصداق  منسلک ہوجاتے ہیں جو زاتی طور پر کم از کم آٹھ تا دس واٹس اپ گروپس کے ایڈمن ہوتے ہیں اور نیوز گروپ میں اپنا رعب و دبدبہ جاری رکھتے ہیں۔

تیسری اقسام کے صحافی جو ایک عرصہ سے کسی بھی اخبار چاہے پھدک کر ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوجائے بہرحال منسلک رہتے ہیں جو واٹس اپ گروپس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا سے جس میں فیس بک کے پیجز اور گروپس، ٹوئٹر، انسٹا گرام ، لنک ڈین، وغیرہ وغیرہ میں بھی اپنی دھاک جما کر رکھتے ہیں۔ چوتھی اقسام کے صحافی واٹس اپ گروپ اور سوشل میڈیا میں ہمہ وقت ایکٹیو رہتے ہیں جو کسی بھِی خبر کا اسکرین شارٹ لینے میں کمال مہارت رکھتے ہیں اور اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے متعلقہ فرد تک فارورڈ کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی اسی وفاداری سے گھر میں دال روٹی کا انتظام چلتا رہتا ہے۔

پانچویں اقسام کے وہ صحافی ہوتے ہیں جو دوسرے ادارے کے صحافیوں کی عزت کا جنازہ نکالتے ہوئے  بلیک میلر، بھتہ خور،لفافہ صحافی،  جعلی صحافی وغیرہ وغیر گردانتے ہیں یہ بھِی اسکرین شارٹ لینے میں کمال مہارت رکھتے ہیں ان کی خبریں کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں۔ فلاں صحافی فلاں علاقے میں فلاں کام کر رہا ہے یا کروا رہا ہے فلاں صحافی نے فلاں صاحب کے خلاف جو خبر چلائی ہے بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔

ایسی خبروں سے ان کی روح کو تسکین کے ساتھ ساتھ اپنی وفاداری کا پورا پورا ثبوت دینا ہوتا ہے رکھا ہوتا ہے ان کی فرضی کہانیوں سے  کوشش ہوتی ہے کہ اپنی پرانی موٹر سائیکل سے پراڈوں تک کا سفر کریں اور چھوٹے مکان سے لے کر بڑے بنگلے کے مالک بننے کے خواہاں رہتے ہیں۔
چونکہ زمانہ ترقی کر گیا ہے اور خبروں کو پہنچانے کے نت نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں  حضرت انسان نے بھی ترقی کرتے ہوئے پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرونک میڈیا تک رسائی حاصل کر لی تاہم واٹس اپ گروپ اور ویب چینل کے نیوز بنانے کا بھِی اپنا انداز ہے حضرت انسان کو جہاں سے پیسے ملے وہاں خبروں کا انداز ہی جدا ہوتا ہے جب پیسے نا ملیں تو خبروں کی سرخیاں کسی ہوتیں وہ ہر باشعور شخص سمجھ سکتا ہے کیونکہ موجودہ دور میں  ہر شخص خواہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہے چند ہزار روپے دے کر کسی بھِی ڈمی اخبار یا نام نہاد ویب چینل میں صحافت کا لبادہ اوڑھے باضمیرسینئر اور معزز صحافیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے افسران کے دھجیاں اکھیڑنے لگ جاتے ہیں۔

۔
تاہم اچھے صحافیوں کی جبری برطرفی اور چھوٹے اخبارات جو موجودہ حالات  میں اشتہارات نا ملنے اور صحافت میں زوال کے  سبب بند کرکے  فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے  اس میں ابھِی بھی بہت سے ذمہ داران صحافی موجود ہیں جنہوں نے پرانی موٹر سائیکل سے پراڈوں کا سفر، جائیدایں بنانے اور بیرون ملک سفر نا کیا بلکہ اپنے شعبہ سے وفادار رہے صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون گردانتے ہوئے حق و سچ کی راہ میں ڈتے رہتے ہیں۔

ہر سال 3 مئی کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کیونکہ صحافت کے شعبے سے منسلک ایماندار صحافی جو خاص کے لئے نہیں بلکہ عام کی جانب رواں دواں ہوتا ہے۔ معاشرے کے مظلوم لوگوں کی آواز میں اپنی آواز ملا کر دوسروں کی اس جنگ میں خواص کو اپنا دشمن بنا لیتا ہے جو اپنی زاتی پریشانیاں چھوڑ کر دوسروں کے حقوق کے لئے لڑتا ہے۔

جو مظلوم کو حق دلانے کے لئے اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے جس سے عوض دھمکیاں، مار کٹائی اور کردار کشی نصیب ہوتی ہے متعدد صحافی اپنی پیشہ وارانہ کام کے روران اپنی جان گنوابیٹھے۔ تاہم حق و سچ کو دبایا تو جا سکتا ہے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھِی وطن عزیز میں لاکھوں دیانتدار صحافی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار تو رہے ہیں مگر حالات سے سمجھوتہ کر کے ضمیر فروشی کے مرتکب نہیں ہوئَے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :