چلیں آپ کو تھانے لے چلیں۔۔

پیر 25 جنوری 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

کبھی آپ کو کسی تھانے سے واسطہ پڑا ہے۔۔
تھان  کیا ہیں کافی لوگوں کی نہیں پتا۔۔۔ چلیں  ہم آپ کو بتاتے ہیں۔۔
تو جناب تھانہ ایک ایسی کوئی خطر ناک جگہ نہیں ہے۔۔ آپ تھانے کے دروازے سے اندر داخل ہو اور ایک پولیس کانسٹیبل  آپ کو فورآ  روک لے گا۔ ۔۔۔
ایک گونچ دار آواز آپ کو سنائی دے گی۔۔  
کہاں  جا رہے ہو؟؟
 کس کے پاس جا رہے ہو؟
 تھانے کس کام آئے ہو۔

۔ وغیرہ۔۔ وغیرہ۔۔
پھر آپ کا جواب کس اس طرح سے ہوگا۔۔ کہ  جناب میرا موبائل فون یا میری موٹر سائیکل چوری ہوگئی ہے۔ یا کچھ دیر پہلے چند ڈاکوں مجھ سے نقدی وغیرہ چھین کے لے گئے ہیں۔۔
سنتری کو پوری طرح مطمئین کرنے کے بعد آپ کو ڈیوٹی افسر کے پاس بھیج دیا جائے گا جہاں صاحب بہت زیادہ مصروف دیکھائی دیتے ہوں گے۔

(جاری ہے)

۔ ۔
موقع غنیمت جان کر آپ بولو گے صاحب میرا موبائل فون چوری ہوگیا ۔


جواب : کہاں سے ہوا ۔۔۔۔ کیوں ہوا کیسے ہوا کب ہوا آپ وہاں کیا کر رہے تھے۔۔
سوالوں کے نشتر ایسے ہوں گے کے اک لمحہ آپ سوچیں گے  یا اللہ کہیں میں خود چور تو نہیں یا میں غلطی سے غلط جگہ پر تو نہیں آگیا۔۔
اگر آپ ہمت کر کے ٹھیک ٹھیک جواب دے دیں تو ڈیوٹی افسر کی کوشش ہوتی ہے کے وہ آپ کو یہ کہہ کر چلتا کر دے کے ہمارے علاقے کا کیس نہیں ہے آپ فلاں تھانے پر جاوّ۔


بہرحال آپ اگر ڈیوٹی افسر کو کسی طرحہ مطمئین کر دیتے ہیں ہے کے سر آپ کی حدود لگتی ہے میں پہلے ہی معلومات کر کے آیا ہوں۔۔:
تو ڈیوٹی افسر کا سوال:  کسی پر شک بندوں کو جانتے ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔
پھر آپ کو بیٹھنے کا کہہ کر  مصروف صاحب اپنے کسی کام میں لگ جائیں گے
آپ پھر بولو گے جناب میری ایف آئی آر تو بولیں گے ایک بندے کے لئے محنت کرنی ہوگی چائے پانی لگے گا کم سے کم 300 دوگے تو شکایات درج کرونگا ۔

۔
پھر آپ ویسے ہی لٹ چکے ہوتے ہو یہ سوچ کر کے کل کو موبائل فون کسی کسی غلط استعمال نا ہوجائے چار و نا چار  آپ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ ۔۔
اور ایک کاغذ  آپ کے ہاتھ میں دی دیا جاتا ہیں کے جاؤ ۔۔
اور آگر  بات کی جائے  ایف آئی آر کی سمجھیں  پورا تھانہ ادار سے ادھر بھگ رہا ہوتا ہیں کے بھائی ایف آئی آر تو بہت زیادہ مشکل کام ہیں۔
پتا ہے ایف آئی آر کے کتنے پیسے لگتے ہیں کم سے کم 3000 ہزار روپے دوگے تو کام ہوجائے  گا ہم چور بھی ڈھونڈ لیں گے اس چیز کی پریشانی آپ کی نہیں ہوگی ۔


اگر شہری پیسے دے کر ایف آئی آر کا سوچ لیتا ہے اور اس کو کم سے کم پیسے دینے کے بعد دو سے تین دن روز تھانے جا کر حاضری ضرور دینی پڑتی ہے۔ اور تھانے دار کا ایک ہی جواب ہوتا ہے آپ  پیسے دے  دیئے ہیں  آپ کی ایف آئی آر  ایس پی، ایس ایس پی تک گئی  ہوئی  صاحب لوگ اجازت دیں گئے ہم ایف آئی آر درج کر دیں گے ۔۔۔۔
غرض یہ کے ایک عام شہری جو پہلے ہی لٹ چکا ہوتا ہے۔

۔ پیسوں پر پیسے کھلانے کے بعد بھی اپنا کام دھندہ چھوڑ کر تھانے کے چکر لگانا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔۔
مگر کام کی رفتار اور ان کی گھڑی کی سوئی آگے نہیں بڑھتی۔۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی میمون صاحب نے بہت کوشش کی کے پولیس کا بوسیدہ نظام اور ماتحت اہلکارصحیح  ہوجائیں لیکن یہ لوگ  ٹھیک ہونے   کا نام نہیں لے رہے۔
ماضی میں  غلام نبی صاحب نے سزا بھی دی نوکری سے فرق بھی کئے لیکن پولیس محکمہ میں موجود ان کالی بھیڑوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔

۔ آج بھی کھانوں میں سیاسی بنیادوں پر ایس ایچ اوز اور ہیڈ محرر کی تعیناتی جاری ہے۔ لاڈلے ایس ایچ اوز میڈیا کی خبروں سے کچھ اثر نہیں پڑتا۔۔۔۔ لیکن ایک عام انسان ہمیشہ رل جاتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کے معاملہ کچھ بھی ہو مگر تھانے کا چکر لگانے سے ڈرتا ہے۔
آخر وہ دن کب آئے گا جب عوام کو واقعی لگے گا۔۔ پولیس عوام کے تحفظ کے لئے ہے اور اگر وہ تھانے جائے گا تو اسے واقعی انصاف ملے گا۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :