کس کس کا کریں ماتم ہر روح نوحہ کناں ہے

ہفتہ 10 اپریل 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

زمینی حقائق دیکھیں تو انداذہ ہوگا کے رمضان سے قبل ہی عوام کی چینخیں ساتویں آسمان پر پہنچ چکی ہیں،روزمرہ اشیاء خرد و نوش کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کیا جاسکا منافع خور من مانی قیمتیں وصول کرنے میں مشغول،،، بنیادی ضرورت کی اشیاء جس میں سب سے اہم جز دودھ کا آتا ہے کمشنر کراچی کا 94 روپے فروخت کرنے کا خواب خواب ہی رہا۔۔ محدود سروے کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں دودھ کی قیمت 120 روپے لیٹر سے 130 روپے فروخت کئے جانے کا انکشاف،
قدرتی گیس کی بندش۔


ماہ مبارک رمضان کی آمد سے قبل ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی بدترین صورتحال کے ساتھ ساتھ عوام قدرتی گیس سے محروم ہونے لگی،، شہر کے مختلف علاقوں میں عوام گیس کی بندش خاص کر جمعہ والے دن شدید اذیت کا شکار ہیں،،،،،، مگر حیرت کی بات ہے کہ گیس گھروں میں میسر نہیں مگر سی این جی اسٹیشن میں دستیاب ہے۔

(جاری ہے)

۔۔
گدا گروں کا ٹولہ۔


ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی شہر قائد میں ملک کے مختلف حصوں سے لائے گئے گدا گروں کے ٹولہ نے ایک بار پھر کراچی میں مخصوص ایریاز میں قبضہ جما نے کو تیار  جو مختلف ایریاز کے حصوں کو علاقہ پولیس کے بھروپور تعاون سے خرید کرٹولہ کی شکل میں گدا کری شروع کر دیتے ہیں، واضح رہے کے چند دنوں قبل ان پیشہ ور بھکاریوں کے لئے مخصوص آپریشن کیا گیا جو ایک دو دن سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکا، اب یہ پیشہ ور گدا گر رمضان کے پہلے عشرے تک پورے کراچی کو ایک ناسور کی شکل میں جکڑنے کے لئے تیاربیٹھے  ہیں۔


چوری کی واراتوں میں اضافہ۔۔
 کار اور موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں بتدریج اضافہ نظر آرہا ہے،،، رمضان کی آمد سے قبل ہی شہرمیں سرعام موٹر سائیکل چھینے اور چوری کی واقعات میں کمی نا لائی جا سکی محدود اندازے کے مطابق رواں برس موٹر سائیکل چھیننے یا چوری کی 6000 کے ذائد واقعات ہوئے،، اگر سی پی ایل سی سے ڈیٹا حاصل کیا جائے تو اس کی تعداد میں کئی گناہ اضافہ ہوسکتا ہے۔

۔
سگ گزدگی کے خطرات؛
 شہر میں موثر انسداد ڈاگ  مہم نا ہونے کےسبب آئے روز خواتین اور بچوں کے کاٹنے کے واقعات اخبارات کی زینت بن رہے مگر سندھ حکومت کمیٹیاں بنانے سے آگے نہیں نکل سکی۔ ماہ مبارک کے مہینے میں عبادات کے لئے  مساجد میں عوام کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے، کثیر تعداد سحری کے وقت علاقائی مساجد میں نوافل اور دیگر عبادات کے لئے رخ کرتے ہیں مگر رات کے اس پہر کتوں کی بڑی تعداد گلیوں محلوں اور سڑکوں پر منڈلاتے رہتے ہیں، اگر شہر بھر میں آوارا کتوں کا سدباب نہیں کیا گیا تو اس کے کے نتائج مذید خطرناک ہوسکتے ہیں،
ٹرانسپورٹ کا فقدان۔


ملک کا 70فیصد سے ذائد ریونیوں دینے والا بدنصیب شہر کراچی جس کی آبادی کا ذائد حصہ ذاتی ٹرانسپورٹ نا ہونے کے سبب منی بسوں اور کوچز کا محتاج ہے جس کی اعلی مثال صبح کے اوقات میں بسوں اور د روازوں کے لٹکے بدحال خواتین اور مرد دیکھے جاسکتے ہیں، جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر کس اذیت سے دوچار ہوکر ان بسوں کا سفر کرتے ہیں۔۔
خستہ حال قبرستان۔

۔

پڑھے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پُھول چڑھائے کیوں
کوئی آکے شمع جَلائے کیوں میں وہ بے کسی کا مزار ہُوں
اس شعر کو مدنظر رکھتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کراچی نے چپ سادھی ہوئی ہے۔
شہر بھر میں چھوٹے بڑے قبرستانوں کی جو حالت ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، قبرستانوں میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر،،، پانی کا فقدان، قبروں کی خستہ حالی حتی کے پاکستان کے نامور شعراء، ادیب، فنکاروں کے مزار کی جو حالت ہے اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ملک کے نام روشن کرنے والے افراد کا موت کے بعد کیسا سلوک کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :