صحافت کی تعریف

ہفتہ 20 نومبر 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

صحافت عربی زبان کے لفظ "صحف" سے ماخوز ہے جسے لغوی معنی کتاب، رسالہ یا صفحے کے ہیں، انگریزی زبان میں اس کا متبادل لفظ جرنلزم ہے جو کہ جنرل سے ماخوز ہے جس کے لغوی معنی روز کے  حساب کا بہی کھاتا  یا روزنامچہ کے ہیں۔ اگر زمانہ قدیم میں دیکھا جائے تو صحیف یعنی صحیفہ مقدس تحاریر یا پیغامات کے لئے مخصوص کی جاتیں تھی ان مقدس کتاب یا آسمانی صحیفے کے قلمی نسخے تیار کرنے والے صحافی کہلاتے تھے، زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں واقع ہوتیں گئیں اور علمی، ادبی اور فلسفانہ تحاریر بھی صحائف کے زمرے میں آنے لگیں۔

پریس کی ایجاد کے بعد جرنلزم نے خوب فروغ پایا۔ جبکہ اگر ہم چند صدی پیچھے جائیں تو تب بھی پتا چلتا ہے کہ بادشاہ وقت اپنے پیغامات پہنچانے کے لئے ڈھول بجا کر منادی کراتے تھے تاکہ عوام کا جم عفیر جمع ہوکر بادشاہ وقت کی جانب سے جاری کردہ نیا فرمان سنا سکیں رفتہ رفتہ یہ منازل طے کرتے ہوئے پریس کی شکل میں موجودہ دور کا حصہ ہے۔

(جاری ہے)

اخبارات، جرائد اور رسائل کا دُور دُورہ شروع ہو تو صحافت اخبار و جرائد کی ترتیب و تدوین کے لئے استعمال ہونے لگی، نظریہ اختلاف کے باعث بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صحافت محض تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے جس میں موجودہ صحافت کے تناظر میں جہاں ملک بھر سے تعلیم و تجربے کو نا دیکھتے ہوئے ہر کس و ناکس کو بھرتی کر لیا جاتا ہے۔

ناقدین کا یہاں تک کہنا ہے کہ موجودہ دُور کی صحافت ایسی ہوچکی ہے کہ آج کل کی صحافت کرنے والے مظلوم کی داد رسی کے عوض پیسے طلب کرتے ہیں، اور ظالم سے خبر دبانے کے لئے خطیر نذرانے کی وصول کرتے ہیں، جبکہ حقیقت پسندوں کا کہنا ہے کہ شفاف صحافت ایک چمکتے دمکتے ستارے کی مانند ہے۔ جہاں آپ کسی بھی حالات و واقعات کا بھرپور تجزیہ کرکے غیرجانبداری سے اپنے فرائض کی سرانجامی کرکے حُکام بالا اور شہریوں کو آگاہی دیتے ہیں، مشہور مفکرین کے بقول صحافت کا لفظ "صحیفہ" سے نکلا ہے "جس کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے ہیں"۔

عملآ ایک عرصے تک صحیفے سے مراد ایسا مطلوبہ مواد ہے سائل صحیفے ہیں اور جو لوگ اس کی ترتیب و تحسین اور تحریر سے وابستہ ہیں انہیں "صحافی" کہا جاتا ہے اور ان کے پیشے کو صحافت کا نام دیا گیا ہے۔ صحافت کے نظریات کی بات کریں تو 1956 میں صحافت کے چار نظریات شائع ہوئے جن میں بتایا گیا تھا صحافت کی ذمہ داریاں  کیا ہیں  اور اس بات کی بھِی وضاحت کی گئی کہ صحافت ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں کیوں اتنی جلدی تبدیل ہوجاتی ہے اگر صحافت اور اس کے بنیادی عقائد کی بات کی جائے تو صحافت کا تعلق کہتے ہیں فطرت انسانیت، ریاست اور شہریوں کے ربط و تعلقات علم و سچائی کی نوعیت سے ہے۔

سپرٹ، پیٹریسن اور شرائم نے ان عقائد کی چار اقسام بیان کی ہیں، 1 آمرانہ نظریہ صحافت، 2 حریت پسند نظریہ صحافت 3 اشتراکی نظریہ صحافت اورنمبر 4  صحافت کا نظریہ سماجی ذمہ داری، اگر اہم چاروں اقسام کا چیدہ چیدہ ذکر کریں تو سب سے پہلے آمرانہ نظریہ صحافت کا ذکر آتا ہے کیونکہ آمرانہ ریاستوں نے سن1500 سے سن 1700 تک بھرپور انداز میں اپنا تسلط قائم رکھا، ان کے سیاسی نظام نے پریس یعنی صحافت میں خاصہ دباوّ رکھا آمریت پسند معاشروں میں رعایا سے یہ ہی توقع رکھی جاتی ہے کہ صرف ریاست کی تابعدار رہے جبکہ مفکرین کا اس بات پر پختہ یقین تھا کے ہر معاشرے میں امن ، تحفظ کے لئے مال و جان کے لئے انفرادی آزادی کو پشِ پُشت ڈال دینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ عوام اور سیاسی رہنماوّں کے مابین شدید اختلاف پایا جاتا تھا آمریت پسندوں کا خیال تھا کہ لیڈروں میں عام لوگوں کی نسبت ذیادہ عقل ہوتی ہے لہٰذا ریاست کے امور صرف و صرف لیڈر ہی چلا سکتے ہیں۔

اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ خدا کی جانب سے منتخب کردہ نمائندے ہیں اور خاص مقدس طاقت کے بل بوتے پر حکومت کرتے ہیں بعض نظریات بھی اس بات کی حمایت کرتے تھے کہ عوام کے مطلب پرست جذبات کو کنٹرول کرنے کے لئے لیڈر کا ہونا بہت ضروری ہے، آمریت پسند ریاستوں کے لیڈر پریس کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے لہٰذا انہوں نے اس کے باقاعدہ اجازت نامے جاری کئے، احتسابی نظام سخت ہونے کے باعث ریاستوں نے رفتہ رفتہ لائسنسوں کے اجراء کو ختم کر دیا اور ساتھ ہی پریس پر مذید سختیاں شروع کر دیں۔


آمرانہ صحافت نظریہ صحافت کے حامل ملکوں میں پریس اگرچہ نِجی ملکیت ہوتے ہیں  لیکن اسے ہر وقت حکومت کے تابع رہنا پڑتا ہے، نمبر دو کا جائزہ لیں جس میں حریت پسند صحافت ہے تو نظریہ حریت پسندی کے مطابق فرد اپنی مرضی کے مطابق کام کر سکتا تھا کسی کو خصوصآ ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے نجی معاملات میں دخل اندازی کرے۔ حریت پسندی نے صحافت سے متعلق مفکرین کے نظریات بھِی تبدیل کردیئے پہلی مرتبہ یہ تقاضا کیا گیا کے صحافت کو حکومت کا نگران ہونا چاہئے اٹھارویں صدی عیسویں کے اختتام پر یورپی ممالک کے اکثر ممالک نے متفقہ فیصلہ کیا کہ جس سے کسی شخص کی توہین ہو , عریانیت کو فروغ دینے کے متعلق کوئی بیان نا شائع کیا جائے اور پریس ایسے بیانات سے اجتناب کرے جو ملکی بقاء و سلامتی  کے خلاف ہو۔

نمبر تین کا ذکر کریں تو "اشتراکی نظریہ صحافت" یہ فلسفہ سویت یونین میں  قدیم آمریت پسندی کی ذیلی شاخ کی حیثیت سے پروان چڑھا، لیکن اس کئ اہم تبدیلیاں بھِی کی گئی ہیں اکثر آمریت پسند حکومتیں "صحافت" کو نجی ہاتھوں میں رکھنے کی حامی ہیں۔ کمیونسٹ ریاستوں میں "صحافت" حکومت کے ذیرنگیں ہے۔ اسی طرح جہاں کہیں بھِی آمریت پر پابندی ہے وہاں کمیونسٹ ریاستوں کی کوشش ہوتی ہے صحافت ان کی مرضی کے مطابق استعمال ہو۔

صحافت کے بارے چوتھا نظریہ جس میں "صحافت کا نظریہ سماجی ذمہ داری" کا جائزہ لیں تو اس نظریئے کے مطابق ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ جو چاہے کر سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس فرد پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ دوسروں کی آذادی کا احترام کرے  یعنی کسی کی آزادی میں کوئی رکاوٹ پیدا نا کرے یعنی اس نظریئے کے مطابق زرائع ابلاغ پر زمہ داری عائد ہونی چاہئے کہ وہ معاشرے میں افراد کے حقوق و مذہبی عقائد کا احترام کرے۔


اسی طرح اگر صحافت کی اہمیت کی بات کی جائے تو صحافت کا دائرہ اثر تمام شعبہ ہائے زندگی پربالواسطہ اور بلا واسطہ ہے، ریڈیو، اور ٹیلی ویژن کے ایجاد سے پہلے اور ترقی کے موجودہ دُور تک پوری تاریخ ایِسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جس میں صحافت نے برائے راست عوام الناس کو متاثر کیا ہے اس سے افراد میں ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے دنیا کی ہر قوم میں ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کا جذبہ پیدا کرکے زندہ رہ سکتی ہےجس کی تکمیل کے لئے "صحافت" سے بڑھ کر کوئی کوئی قوت نہیں۔

صحافت ہی قوموں کو ایک شیرازہ اتحاد میں منسلک کرتی ہے یہی وہ واسطہ ہے جس سے ضعف قوی کے "صحافت" کا پہلا فرض ہے جب تک صداقت اور راست بازی سے فرض انجام پاتا رہے گا صحافت کی قوت میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہر علم و فن کی معلومات صحافت ہی سادہ اور سلیس زبان میں صحافت ہی فراہم کرتی ہے جس سے ہر فرد یکساں طور پر استفادہ کر سکتا ہے۔
"صحافت" تہذیب و تمدن کی شکل بردار ہے ہر قوم اپنے تمدن کو صحافت کے زریعے ہی اُجاگر کرتی ہے تاہم دُور حاظر میں جہاں "صحافت" کی مختلف اشکالیں نظر آتیں ہیں وہیں صحافت میں صحافیوں کے لئے صوبہ سندھ خصوصآ کراچی میں نت نئے ناموں کا ذکر ملتا ہے  اس جنگ میں ایک دوسرے سے سبقت کے جانے کی کوشش میں جو محاظ آرائی جاری ہے اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔

تاہم اگر صحافت کے حقوق ادا کر دیئے جائیں  یہ انتہائی معزز اور قابل احترام پیشہ ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :