پیش امام تو ملازم ہوتا ہے

بدھ 22 اپریل 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

کورونا وائرس کے پھیلاﺅ سے بچاﺅ کے لئے حکومت اور ہر مکتبہءفکر کے علماءکا فیصلہ دوسرے اسلامی مما لک سے قدرے مختلف ہے اس لئے کہ ہماری مذہبی سوچ بھی قومی قوانین سے قدرے مختلف ہے ہمارے ملک میں علماءکے قومی فیصلے شاہراہوں پر دھرنے میں ہوا کرتے ہیں اور دوسرے ممالک کے فیصلے ان کے ایوانوں میں!!
علماءاور حکومت کے اعلامیہ میں رمضا ن المبارک میں با جماعت تراویح کی مشروط اجازت مل گئی گو کہ ہم نماز سے پہلے اور بعد کے سنتوں سے بے پروا ہیں جب کہ تراویح سنتِ معقدہ ہیں لیکن تراویح کے بغیر روزہ رکھنے کا مزہ بھی نہیں آتا۔

مشرو ط اجازت میں کہا گیا ہے کہ نمازی مسجد میں نماز پڑھ کر فوری طور پر مسجد سے باہر آ ئیں گے نہ تو کسی سے ہاتھ ملائیں گے اور نہ بغلگیر ہوں گے اس لئے کہ کہیں نہ ان سے کورونا لپٹ جائے باجماعت نما ز قالین پر نہیں مسجد کے صحن میں فرش پر پڑھی جائے گی جماعت سے پہلے کلورین سے فرش دھویا جائے گا صف میں کھڑے دو نمازیوںکے درمیان تین فٹ اور دو صفو ں کے درمیان کا فاصلہ چھ فٹ جیسی شرائط پر مشتمل اعلامیہ کورونا وائرس سے بچاﺅ کے لئے درست ہے لیکن اس پر عمل درآمد ناممکن ہے نماز جمعہ کے لئے بھی ایسی ہی ہدایات اور احکامات ہیں لیکن اجتماعات میں ماحول ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا لاک ڈاﺅن کا تماشہ بھی حکومت کے ساتھ عوام نے بھی دیکھا ۔

(جاری ہے)

کریانے اور اشیائے ضرورت کی دوسری دکانوں پر رش نہیں ، رش تو شہروں اور بازاروں کے چوراہوں میں سبز ی فروٹ فروشوں کے تڑوں اور ٹھیلوں کے اطراف میں ہوتا ہے اور وہ جیسے پہلے تھا لاک ڈاﺅن میں کچھ زیادہ دیکھنے میں آیااور آرہا ہے ۔
فیس بک کے فلاسفروں کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر سماجی دوریوں کے لئے بازاروں ،فروٹ اور سبزی منڈیوں پر ایسا قانو ن لاگو نہیں ہوتا تو مساجد میں کیوں ؟مساجد میں تو عام آدمی بھی گھر سے پاک صاف ہو کر آتا ہے حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ عبادت کے لئے مساجد میں بچے اور پچاس سال سے زیادہ عمر کے بوڑھے نہ آیا کریں حالانکہ تراویح کے لئے مسجد میں نوجوان کم اور بوڑھے زیادہ ہوتے ہیں
ہم پاکستانی مسلمان ہیں ہر وہ کام شوق سے کرتے ہیں جس سے منع کیا جاتا ہے اس لئے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے پاکستان کے عوام نے نہ تو پہلے کھبی ایسی پابندیوں کی پرواہ کی ہے اور نہ اب کریں گے پاکستانی عوام اناﺅں کے آسمان پر مذہب اور سیاست کھیلنے والوںکی سیاست اپنا چکی ہے کھبی بھی انتہائی سنگین صورت حال کوسنجیدہ نہیں لیا اس لئے کہ ہم لاشوں ، گھیراﺅ جلاﺅ اور دھرنوں کی سیا ست کے قائل ہیں قومی یکجہتی اور وطن پرستی کے عمل کے قریب سے بھی نہیں گزرتے فرقہ پرستی میں قوم کو تقسیم کر دیا گیا ہے حکومتی مشاورتی اجلاس سے قبل مولانا منیب الرحمان جن کے ساتھ ہر سال قوم کا جھگڑا رمضان اور عید کا چاند نظر نہ آنے پر ہوتا ہے ان کو کورونا کیسے نظر آ سکتا ہے ۔

اس نے رمضان المبارک کی عبادات پر فتویٰ جاری کر کے حکومت کو اجلاس سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا اس لئے حکومت او ر علماءکرام نے اپوزیشن کو تنقید کی بانسری بجانے سے قبل ہی بانسری کو توڑ کر اور درمیانی راستہ نکال کردور اندیش فیصلہ کیا حکومت کے اس فیصلے کو ہر مکتبہ فکر نے سراہا ہے اس لئے کہ اگر حکومت رمضان المبارک میں مساجد میں عبادات پر پابند لگا دیتی تو مولانا منیب الرحمان کے ہم نوا شورمچاتے اور حکومت کے خلاف سڑکوں گھیراﺅ جلاﺅ کے وہ شوقین ہوتے جنہوں نے کھبی مسجد میں قدم نہیں رکھا !
  لیکن سوچنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا عوام پابندیوں سے بے پرواہ ہیں امام مسجد بے اختیار اور مسجد انتظامیہ کا ملازم ہے اگر امام مسجد انتظامی کمیٹی کو نظر اندازکر کے حکومت کے احکامات کے مطابق امامت کرے گا تواس کی ملاز مت کی ضمانت کون دے گا سرکار کی انتظامیہ ہر مسجد میں کیسے جا سکتی ہے لیکن اگرحکومت کے احکامات اور ہدایات کی خلاف ورزی پر سرکار کی انتظامیہ اگر کوئی کاروائی کرتی ہے تو وہ امام مسجد ہی کے خلاف ہوگی کیوں کہ سیلابی پانی وہاں سے راستہ بناتا ہے جہا ں پشتہ کمزور ہو!
  وزیرِ اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ہم رمضان المبارک میں عبادات پر پابندی نہیں لگا سکتے کسی کو عبادت سے نہیں روک سکتے لیکن مسا جد میں علماءکو شرائط پر عمل کرنا ہو گا اگر رمضان المبارک میں کورونا مزید پھیلا تو مساجد بندکرنا حکومت کی مجبوری ہو گی! جامع الازہرکے بعد مفتیءاعظم سعودی عرب بھی فرماتے ہیں کہ اگر کورونا کے وار ایسے ہی جاری ر ہے تو نہ صرف تراویح بلکہ عیدا لفطر کی نماز بھی گھروں میں پڑھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :