جج صاحبان بلیک میلر مافیا کے ساتھ دوستی کی سزابھگت رہے ہیں

منگل 30 نومبر 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اپوزیشن اور حکمران جماعت کی نورا کشتی جاری ہے، ایک طرف تخت اسلام آباد بچانے اور دوسری طرف تخت اسلام آباد پر قبضے کی جنگ میں ایک طرف پاکستان کا وقار مجروح ہورہا ہے تو دوسری طرف عوام کے ارمانوں کا خون ہو رہا ہے ،عوام مہنگائی کے دلدل میں دھنسے جا رہے ہیں ۔ منافقت کی اس سیاست میں ایک عمران خان کے علاوہ سب پرانے وہ گاہک سیاست دان ہیں جو گرگٹ سے بھی زیادہ تیزی سے رنگ بدلتے ہیں اوراتنا سفید جھوٹ بولتے ہیں کہ شیطان نے پاکستان چھوڑ دیا ہے ، اس لئے کہ جو وہ کرنا چا ہتا ہے وہ پاکستان کے سیاستدان کر رہے ہیں ۔


عمران خان مریم سے کہہ رہے ہیں لندن میں اپنے محلات کا حساب دو، اور مریم نواز ، جسٹس ثاقب نثار سے پوچھ رہی ہیں بتاﺅ تمہیں کس نے کہا تھا کہ نواز شریف کو گراﺅ اور عمران خان کو بٹھاﺅ ، سیاست دانوں کے اس ڈرامائی کردار میں عدالتوں کے جج جو پہلے سیاست دانوں کی سیاست کا تماشہ دیکھا کرتے تھے آج سیاسی جلسوں میں جاتے ہیں اور اپنی توہیں پر وضاحتیں دے رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام پریشان ہیں۔ سوچ سوچ کر ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ سچا کو ن ہے اور جھوٹا کون،ساڑھے تین سال تک جلسوں، دھرنوں اور سڑکوں پر خوار ہونے والی اپوزیشن سر جوڑے بیٹھی ہے لیکن فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ، مولانا فضل الرحمان مایوس ہو کر کہہ رہے ہیں اگر کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہو تو میں گھر چلا جاتا ہوں ، میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ ا گر عمران خان کی حکومت گر بھی جائے تو قوم کو بد حال معیشت کے دلدل سے نکالنے میں وقت لگے گا، شہباز شریف نے اگر کل بھی یہ ہی رونا ،رونا ہے جو آج تمہا رے کل کا رونا رو رہے ہیں تو ان کے خلا ف ا حتجاجی تحریک اور لانگ مارچ میں قوم کو کیوں خوار کر رہے ہو؟
سیاسی پنڈتوں کی چالوں کو تو پاکستان کے عوام جانتے ہیں لیکن انصاف کا ترازو بھی ڈھاواں ڈول ہے ۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ وڈیو نے تو عجیب سیاسی ہلچل مچا دی ہے عدلیہ کے کردار پر سنگین سوال اٹھنے لگے ہیں۔ اپوزیشن کیا حکومت بھی مطالبہ کر ر ہی ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر انکوائری کرے۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کیا جائے۔ لیکن اگر سپریم کورٹ خاموش ہے تو مریم نواز جسٹس ثاقب نثار کے خلاف سپریم کورٹ کیوں نہیں جاتیں ؟
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد نے فرمایا تھا کہ ہمیں کوئی آنکھ نہیں دکھا سکتا ، اگر یہ سچ ہے تو جسٹس ثاقب نثار پر لگے الز ام کااز خود نوٹس لیں اور عدالت میں اپنی آزادی ثابت کریں۔

۔قوم کو بتا دیں کہ سچائی کیا ہے ووٹ کو احترام دینے میں کون رکاوٹ ہے ، آئے روز کے اس تماشے سے قوم کو نجات دلائیں ۔ عام انتخابات کے نام پر ڈرامہ با زیاں بند کروائیں ، لیکن اگر اداروں کی خواہشات کے احترام میں طاقت کے سر چشمے کا مذاق ہی اڑانا ہے تو عدلیہ کے چہرے سے انصاف کا نقاب اتار د یں یہ وہ حقائق ہیں جن پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں!
قومی عدالتوں کے فیصلوں میں التواءدر اصل سائل کو برباد اور وکیلوں کو شاداب رکھنا ہوتاہے عدالتیں وکیلوں کو احترام دیتی ہیں اس لئے کہ وکلاء کے ہاتھوں میں چوڑیا ں نہیں ڈنڈے ہیں اور جج صاحبان کی سوچ میں خدا سے بھی زیادہ ان کے قریب ہیں قو می اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کرنے والی پاکستان کی بڑی عدالت نے اس قومی مجرم کو پچاس روپے کے سٹام پر باعزت بیرو ن پاکستان جانے کی اجازت دی جو بحیثیت وزیر ِ اعظم صادق اور ا مین نہیں تھا، اس لئے کہ گذشتہ ۵۳ سالہ جمہوری دورحکمرانی جو درس دیا گیا ہے اسی پر عمل کیا گیا ہے ۔

لیکن ہم پاکستانی بحیثیت قوم اب بھی مایوس نہیں ، کسی کو نظر آ ئے یا نہ آ ئے تبدیلی کے آثار دیکھ رہے ہیں
منڈی بہاوالد ین کے( کنزومر کورٹ کے) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راﺅ عبدالجبار نے توہین عدالت کیس میں اپنی عدالت میںمنڈی بہاءالدین کے ڈپٹی کمشنر طارق علی بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیاز بیگ کو ہتھکڑی لگوائی اور 3 ،،3ماہ کے لیے جیل بھیجنے کا حکم سنادیا۔

یہ فیصلہ ایک عام شہری کی داد رسی کے لئے دی گئی درخواست پر سرکاری مکان کی الاٹمنٹ کے مقدمے کی سماعت کے دوران دیا گیا ۔عدالت نے قرار دیا کہ لِٹی گیشن (litigation) آ فیسر رانا محبوب نے غیر مہذبانہ اور چیخنے کے انداز میں بات کی، عدالت کو یقین ہے کہ ڈی سی اور اے سی کی ملی بھگت سے یہ منصوبہ بنایا گیا۔
جج نے کہا عدالت کو یقین ہے ، ایسے ہی جج زندہ ضمیر ہوتے ہیں جو اپنے فرائض میں خدا کو حاضر و ناظر مانتے ہیں ، لیکن پاکستان کی قومی عدالتوں میں پاکستان کے وقار اور قومی اداروں کے تقدس کی بجائے زرداروںکو سوچا جاتا ہے ،قومی عدالتوں میں مجرموں کو نہیں ان کے فیصلوں کو لٹکایا جاتا ہے ، مجرم کو وقت دیا جاتا ہے کہ وہ خود کو فرشتہ ثابت کرے، اگر جج کا دامن پاک ہو اورتوہین عدالت کے کیس میں منڈی بہاوالدین کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی طرح ملزموں کو ان کی اوقات بتا دیاکریں تو کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ جج کے کردار پر انگلی اٹھائے کوئی علی احمدکرد کسی جج سے سوال نہیں کرے گا کہ”ملک میں کون سی عدلیہ ہے، وہ عدالتیں جن میں ہم اور لاکھوں لوگ روز دادرسی اور انصاف کے لیے پیش ہوتے اور اپنے سینوں پر زخم لے کر گھروں کو نظام عدل پر ماتم کرتے آتے ہیں، کیایہ عدلیہ انسانی حقوق کا تحفظ اور جمہوریت کو مضبوط کرے گی؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :