فیصلہ آپ نے کرنا ہے

جمعہ 10 دسمبر 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

سعادت حسین منٹو لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ بازار حسن جانے کا اتفاق ہوا، شدید گرمی کا موسم تھا میں جس گھر میں گیا وہاں کی نائکہ دو ونڈوز ائیر کنڈیشنر چلا کر خود رضائی میں لپٹے سردی سے کانپ رہی تھی تو میں نے کہا!آپ ایک ”   اے سی “کو بند کیوں نہیں کر دیتیں اس طرح آپ کو بل بھی کم آئیگا، تو نائکہ نے مسکرا کر جواب دیا ” اساں کھیڑا بل اپنی جیب و چوں دینا اے “
منٹو کہتے ہیں کہ اس بات کو کافی عرصہ گذر گیا ۔

ایک کام کے سلسلے میں مجھے گجرانوالہ کے اسسٹنٹ کمشنر کے آفس جانے کا اتفاق ہوا ، شدید گر می کا موسم تھا اور صاحب بہادر پینٹ کوٹ میںملبوس ٹائی لگائے اپنے آفس میں بیٹھے تھے ، دو ونڈوز ایئر کنڈیشنر فل آب و تاب سے چل رہے تھے اور جناب کو سردی بھی محسوس ہو رہی تھی تو میں نے کہا جناب آپ ایک ” اے سی “بند کیوں نہیں کردیتے اس طرح آپ کو بل بھی کم آئیگا ، تو صاحب بہدار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ” اساں کھیڑا بل اپنی جیب وچوں دینا اے “
  منٹو کہتے ہیں کہ میرا خیال اسی لمحے بازار حسن کی نائکہ کی طرف چلا گیا کیونکہ دونوں کے مکالمے اور سوچ ایک جیسی تھی۔

(جاری ہے)

تب سارا معاملہ میری سمجھ میں آگیا کہ میرے ملک کے تمام ادارے ایسی ہی نائکہ کی سوچ رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں ہے، جب کہ اس کے بر عکس قائد ِ اعظم محمد علی جناح کا معمول یہ تھا کہ جب بھی آپ اپنے دفتر سے باہر آتے تو بجلی کے تمام سویئچ آف کر دیا کرتے تھے آپ اپنے گھر میں ہوتے ، ہمارے ساتھ یا کسی بھی میزبان کے ساتھ ہوتے تو آپ کی یہ ہی عادت ہوا کرتی تھے ایک روز میں نے پو چھ ہی لیا کہ قائد آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو قائد کہنے لگے کہ یہ میرا ملک ہے مجھے اپنے ملک میں بجلی کا ایک بھی یونٹ ضائع نہیں کرنا چاہیے،!
آخری مرتبہ قائد سے میری ملاقات   13، اگست،  1947ءکو گورنر جنرل ہاوس میں ہوئی ملاقات کے بعد جب قائد معمول کے مطابق مجھے سیڑھیوں تک چھوڑنے میرے ساتھ کمرے سے باہر آئے تو حسب عادت بجلی کے تمام سوئیچ آف کر دیے، تو میں نے کہا کہ قائد آپ گورنر جنرل ہیں اور یہ ایک سرکاری قیام گا ہ ہے اس کی بتیاں جلتی رہنی چاہییں تو قائد کہنے لگے میں جانتا ہوں کہ یہ سرکاری قیام گا ہ ہے اس لئے میں زیادہ محتاط ہوں کیونکہ بجلی کا بل قوم کے پیسوں سے ادا ہو گا یہ قومی خزانے کے پیسے ہوں گے یہ میرے اور آپ کے پیسے نہیں اور میں اس پیسے کا امین ہوں اس کے بر عکس اگر میں اپنے گھر میں ہوتا تو مجھے اختیار تھا کہ میں رات کوبتیاں جلائے رکھتا ، لیکن یہاں میں کسی اور حیثیت سے ہوں تم زینے سے نیچے اتر جاﺅ تو میں زینے کے بلب کا سویئچ بھی آف کر دوں گا!
یہ تھی وہ سوچ جو ایک ملک کو بنانے والی تھی اور آج جو سوچ ہے وہ ملک کو کھانے والی ہے ، اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کس سوچ کے امین ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :