عمران خان قانون کی آنکھوں سے کالی پٹی اتارنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں

جمعرات 13 جنوری 2022

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

جولا ئی 2020 میں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک جوڑے پر تشدد اور انھیں ہراساں کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی ،پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای 11 میں ایک جوڑے کو برہنہ کرنے،عثمان مرزا سمیت دیگر ملزمان کو اس جوڑے پر تشدد کرتے ہوئے دنیا بھر نے دیکھا ، عوامی دباﺅ پر پولیس نے ملزمان کو گرفتا رکیا ، تشدد کے متا ثرہ جوڑے کے بیان پرعثمان مرزا، محب بنگش، ادریس قیوم بٹ، فرحان شاہین اور عطاالرحمن پر ستمبر 2021 میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی اور یہ تمام ملزمان اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں
ملزمان کے بے ضمیر وکلاء( جن کی نہ کوئی ماں ہے نہ کوئی بیٹی ہے نہ بیوہی ہے نہ کوئی بہن ہے اور نہ کوئی بھائی ہے وہ دولت کی پیدا وار ہیں قارون کے درباری ہیں فرغو ن کے پجاری ہیں ) نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ متاثرہ لڑکی نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ وہ افراد نہیں ہیں جنھوں نے ان کی برہنہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی تھی۔

(جاری ہے)

عدالت میں لڑکی کی جانب سے ایک بیانِ حلفی جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے میں جو ملزمان نامزد اور گرفتار ہیں یہ وہ لوگ نہیں جو ویڈیو میں نظر آ رہے ہیں اور وقوعہ کے وقت موجود تھے۔بیانِ حلفی کے مطابق گرفتار شدہ ملزمان میں سے کسی نے نہ تو اس کے ساتھ زبردستی کی، نہ زبردستی کوئی ویڈیو بنائی اور نہ ہی انھیں بے لباس کیا!
  سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مجرم نہیں تھے تو ان کو گرفتار کیوں کیا گیا میڈیا میں قانو ن نے نمبر کیوں بنائے مجرموں پر فرد ِ جرم کیوں عائد کی گئی لیکن ہم پاکستان بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے سفاک بااثر معاشرے کے شیطان مجرموں کو لٹکا یا نہیں جاتا ان کے کیس لٹکا دئے جاتے ہیں ، تاکہ وہ متاثرہ لوگوں کو کسی بھی قیمت پر رام کریںخاموش کریں تاکہ وہ کسی بھی ہولناک درپیش آنے خطرے کے پیش نظر سچائی کو بھول جا ئیں اور اپنے خاندان کے تحفظ کے لئے جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جائیں۔

متاثرہ لڑکی نے بے لباس خاندانی وقار کے باوجود جھوٹ بولا اور عدالت نے وکلاءکی جھوٹی من گھڑت داستان کو تسلیم کر لیا ،
  اسلامی جمہور یہ پاکستان کی تاریخ میں یہ کوئی ا نوکھا یا نیا فیصلہ نہیں ہو گا ، ان ہی فیصلو ں کے پیش ِ نظر د نیا بھر کی انصاف کی 136 عدالتوں کی فہرست میں پاکستان 136 ویں نمبر ہے اس لئے کہ پاکستان میںانصاف ملتا نہیں بکتا ہے ، قانون کی آنکھ پر یزیدیت کا کالی پٹی ہے ، وہ صر ف سنتا ہے مظلوم او ر مجبور چہروں پر لکھی ہوئی سچائی اور آنکھوں میں خون کے آنسو وہ دیکھ نہیں سکتے اس لئے کہ جب ضمیر اور احساس مر جائے تو انسانیت ماتم کے سوا کیا کر سکتی ہے
  وزارت قانون و انصاف میں اسلام آ باد میں لڑکا، لڑکی تشدد کیس سے متعلق ہنگامی اجلاس ہوا۔

اس موقع پر عثمان مرزا کیس تفصیلی طور پر زیر بحث آ یا اور کیس کے ٹھوس شواہد پر بات ہوئی۔ملیکہ بخاری نے کہا کہ ہمارے پاس اس کیس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، وڈیو فارنزک کی تصدیق ہوچکی۔انہوں نے مزید کہا کہ اگلی پیشی پر تمام ثبوت عدالت میں پیش کیے جائیں گے، مجرم قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔تشدد اور ہراسانی کیس میں متاثرہ لڑکی کے پیچھے ہٹنے پر وفاق نے معاملہ ہاتھ میں لے لیا۔

وزیراعظم عمران خان نے روزانہ کی بنیاد پر فالو اپ دینے اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ہدایت کردی۔وفاقی وزیر قانون فروغ وفاقی وزیر فروغ نسیم نے عثمان مرزا کیس سے متعلق کہا کہ شواہد اتنے مضبوط ہیں کہ مدعی یا گواہ کے م ±کر جانے سے بھی مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت آ خری دم تک اس کیس کی پیروی کرے گی۔اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ ہم پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے ۔

اسلام آباد میں اس افسوس ناک واقع پر عمران خان نے کہا تھا کہ میں اس جرم کے مرتکب مجرموں کو عبرت کا نشان بنا دوں گا ، یہ میرے لئے ٹیسٹ کیس ہے ،د یکھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان قانو ن کی آنکھوں سے کالی پٹی اتارنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ۔وہ و ز یر اعظم پاکستان ہیں یا اداروں کے غلام ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :