"میں ذمہ دار ہوں گا "

پیر 27 جولائی 2020

Hafiz Irfan Khatana

حافط عرفان کھٹانہ (ریاض ۔ سعودی عرب)

ریاست مدینہ کے بعد اسلام کے نام پہ معرض وجود میں آنے والی دوسری اسلامی ریاست پاکستان ہے پاکستان ایک بہت بڑی نعمت ہے ہم سب کا یہ عقیدہ، پختہ ایمان اور توکل ہے کہ یہ سب تاجدار ختم نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے ملا ہے اس کے حصول کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چاہنے اور ماننے والوں کو ذمہ داریاں عنایت کی کہ وہ اس کے حصول کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں جس میں پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے افراد  نے اس میں شمولیت اختیار کی جس میں علماء حق اور محب وطن افراد نے بھر پور محنت کے ساتھ اپنے جان و مال کا نذرانہ پیش کیا اس کے بدلے یہ پیارا پاکستان ملا بے شک اس وطن کی آبیاری پیارے وطن پہ جان نچھاور کرنے والے شہیدوں نے اپنے لہو سے کی ہے آزادی سے لے کر آج تک جتنے بھی ہم وطنوں نے وطن کے لئے قربانیاں پیش کی ہیں ان سب کی روحوں  کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ویسے تو آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے
مگر چند روز قبل ظفر وال سیالکوٹ کے قریب ایک درد ناک واقعہ پیش آیا جس کو لکھتے ہوئے بھی دل و روح کانپ اٹھی ہے غربت زدہ حالات سے تنگ اور دل ہارے  باپ نے اپنے تین بچوں کے ساتھ زہر کھا کر عارضی  زندگی سے چھٹکارا حاصل کر لیا بچوں کی عمریں غالبا 12 سال سے کم ہی لگ رہی تھی اس خبر کے منظر عام پہ آنے کے بعد سوشل میڈیا پہ کافی تبصرے شروع ہوئے ہیں ہر کوئی دکھ اور افسوس کا اظہار کر رہا ہے مگر یہاں ایک سوال میرے ذہن  میں بار بار دستک دے رہا ہے کیا رشتہ دار، محلے والے،گاوں والے اور ووٹ لینے والے اس غربت زدہ دکھ سے واقف نہیں تھے؟اگر سب واقف ہیں تو پھر ذمہ دار کون ہو گا؟ماشاءاللہ اس بار تو ہماری حکومت نے ووٹ بھی ریاست مدینہ کے نام پہ مانگے تھے کیا اس کی ذمہ دار حکومت نہیں  ہے؟وزیر اعظم عمران خان صاحب فرماتے تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت کی طرز سے ہم حکومت کریں گے خان صاحب دوبارہ آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل پہ حکومت کی........راتوں کو اٹھ کر پیرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے.... آپ فرماتے تھے کہ  اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے روز عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی۔

(جاری ہے)

(بے شک میں اس کا ذمہ دار ہوں گا)
حکومت وقت سے عاجزانہ بطور  سائل پوچھنا چاہتا ہوں کہ باپ اور تین بچوں کا ذمہ دار کون ہو گا؟کیا اس کی پوچھ بھی حاکم وقت سے نہیں  ہوگی؟ اس طرح کے افسوس ناک واقعات کی روک تھام کے لئے حکومت وقت اور معاشرے  کے تمام افراد کو انفرادی طور پہ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا انسان کی موت پہ جس وقت اسے ضرورت نہیں ہوتی صرف دیکھاوے کے لئے منوں کے حساب سے پھل تو لے کر ہم پہنچ جاتے ہیں مگر اس کی حیات میں اس کا حال بھی نہیں  پوچھتے اس دوہرے معیار سے باہر نکلنا ہو گا حقیقت پسندی سے کام لینا ہو گا ورنہ ہمیں بھی اپنی میت پہ ان پھلوں کا سامنا کرنا ہو گا جس کا ہمیں دنیا اور آخرت  میں کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :