حریم شاہ ، صندل خٹک اور بے شرم قہقہہ

ہفتہ 28 دسمبر 2019

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

لبرل طبقے کی جانب سے عورت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر اس آزادی کی حدود قیود کیا ہونگی یہ نہیں بتایا جاتا ۔ آج تک جتنی عورتوں کو آزادی ملی وہ معاشرے کی اخلاقی اقدار پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئیں ۔ عموماً دیکھا گیا کہ آزاد خیال عورت کی آزادی لباس اور جسم کی نمود و نمائش کی آزادی کی سے شروع ہوتی ہے اور معاشرے کی اخلاقی و دینی اقدار کا جنازہ نکالنے پر بھی ختم نہیں ہوتی ۔

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے وہ اسٹار بنے یا اتنا مشہور ہو جائے کہ لوگ اسے اسٹار سمجھنا شروع کر دیں اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دو لڑکیوں حریم شاہ اور صندل خٹک نے سوشل میڈیا پر انٹری کی ۔ پہلے پہل انہوں نے بھی لبرل اور آزاد خیال عورتوں کی طرح لباس اور جسم کی نمود و نمائش کی طرز پر وڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کیں ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سوشل میڈیا اسٹار بن گئیں یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم برائی کو کس قدر تیزی سے آگے بڑھاتے ہیں کہ وہ برائی بھی ٹرینڈ بن جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

پھر حریم شاہ اور صندل خٹک جیسے کرداربھی اسٹار بن جاتے ہیں یہ سوشل میڈیا اور ہماری سوچ کا منفی چہرہ ہے جو حقائق کے آئینے میں نظر آتا ہے ۔ اب ان لڑکیوں کا لیول وڈیوز سے نکل کر پگڑیا ں اچھالنے تک پہنچ چکا ہے یہ پہلے سلیبرٹیز کے ساتھ تعلق بناتی ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرتی ہیں لیکن یہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے کہ بلیک میل کیوں اور کس لیے کرتی ہیں ۔

یہ لڑکیاں اب تک صحافیوں ، سیاستدانوں اور حکومتی وزراء کو نشانہ بنا چکی ہیں مگر کیا ان کا مقصد سستی شہرت حاصل کر کے خبروں میں رہنا ہے یا یہ اعلیٰ شخصیات کو ملیک میل کر کے پیسے بٹورتی ہیں ۔ ان کی تحقیقات کرنا قانونی اداروں کا کام ہے اور اب یہ تحقیقات لازمی ہونی چاہئے یہ لڑکیاں کون ہیں انکا شجرہ نسب کیا ہے ان کا خاندان کیا ہے انکے والدین کون ہیں اور انکے ارادے کیا ہیں ؟ ان سوالوں کے جوابات عام آدمی سننا چاہتا ہے ۔

ان لڑکیوں کے کردار کا اندازہ انکی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے جب معروف صحافی مبشر لقمان کا معاملہ سامنے آیا تو ان لڑکیوں سے اینکر نے سوال پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے انکے جہاز میں وڈیو بنائی تو وہ بدلے میں چاہتے تھے کہ ہم انکو کچھ دیں ہم نے کچھ دیا نہیں اس لیے انہوں نے ہم پر کاروائی کر دی ۔ ہر ذی شعور انسان ان ذو معنی الفاظ کا مطلب بخوبی سمجھ سکتا ہے مگر ان لڑکیوں نے یہ الفاظ بول کر زور دار قہقہہ لگایا یہ بے شرم قہقہ ان کے کردار کی قلعی کھول گیا ۔

پھر یہ فیاض الحسن چوہان کے دفتر میں گئیں وہاں زبردستی ان کی وڈیو بنائی بے شرمی والا قہقہہ لگایا اور انکی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ۔ اور اب شیخ رشید کی وڈیو وائرل کی تو اس میں بھی یہ باکردار لڑکیاں شیخ رشید کو بول رہی ہیں کہ آپ مجھے ننگا ہو کر دکھاتے رہے جس پر شیخ رشید فون بند کر دیتے ہیں اور یہ دونوں لڑکیاں اس پر بھی زور دار بے شرم قہقہہ لگاتی ہیں ۔

ان تینوں واقعات کے بعد یہ دونوں لڑکیاں معاشرے کی نظر میں سرخرو رہیں اور مرد کی پگڑی کو ہر کسی نے اپنی استطاعت کے مطابق خوب اچھالا ، یہ سب دیکھ کر مجھے مرد کی بے بسی پر رونا آیا کہ کوئی بد کردار عورت بھی مرد پر انگلی اٹھا دے تو مرد کے پاس اپنی صفائی دینے کا بھی اختیار نہیں کیونکہ معاشرہ مرد سے صفائی مانگتا ہی نہیں ۔ کوئی عورت مرد کی پگڑی اچھال کر اس پر زوردار قہقہہ لگا دے تو ہمارا معاشرہ اس بے شرم قہقہے کو نظر انداز کر دیتا ہے اور مرد کے پیچھے پڑ جاتا ہے ۔

حالانکہ ان تینوں وارداتوں میں مرد کا کوئی بڑا گناہ یا بدکرداری نظر نہیں آئی پھر بھی سب سے زیادہ کیچڑ مردوں پر اچھالا گیا ۔ وہ لبرل طبقہ ، موم بتی مافیا اور آزاد خیال سوچ کے حامل عناصر عورت کی اس بھیانک آزادی پر خاموش کیوں ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :