لاکھوں خاندانوں کی درخواست بنام خادم اعلیٰ

منگل 13 مئی 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

جناب خادم اعلیٰ ! میں آپ کے عوام دوست کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے آپ کامداح ہوں اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی کوئی تقریر ایسی نہیں جسے میں نے نہ سنا ہو اور جو میرے حا فظے میں محفوط نہ ہو۔ایسی ہی گفتگو جب عالمی یوم سرطان کے موقع پر آپ نے خطاب فر مایا تھا میری یادداشت میں اچھی طرح محفوظ ہے ۔2003میںآ پ خود بھی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہونے کے بعد جس کرب و الم کی کیفیت سے گذرے اسے جب آپ لفظوں میں بیان کر رہے تھے تو آپکے چہرے سے درد کے آثار نمایاں ہو رہے تھے بلکہ یہ الفاظ مجھ جیسے سخت دل انسان کو بھی رونے پر مجبور کر رہے تھے۔

جدہ کے ہسپتال میں ہونے والے ”کیو ہول سر جری “ کے نا کام آپریشن سے لیکر نیو یارک کے ہسپتال میں کامیاب علاج تک آپ کو دکھ، تکلیف اور بے بسی کے کن کن مراحل سے گذرنا پڑا یہ آپ ہی بہتر جانتے ہیں ۔

(جاری ہے)

آپ کو شاید وہ اذیت ناک لمحات بھی کبھی نہ بھولیں کہ جب بڑی آنت کے کام نہ کر نے کے باعث نالیوں سے آپ کو خوراک دی جاتی تھی۔یقیناکرب و الم کے ان مراحل سے گذرنے کے بعد بیماری مریض کی جان کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کو تباہ وبر باد کر دیتی ہے۔

آپ کے بقول کوئی ایسا شخص جو اپنے گھر کا واحد کفیل ہو ،اگر اس بیماری کا شکار ہو جائے تو اس کے چلے جانے سے اس خاندان پر مرتب ہو نے والے اثرات کا کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اور پھر اس کے علاج کی صورت میں اٹھنے والے اخراجات جو عموماََمکان،جائیداد بیچ کر یا پھر ادھا ر کی رقم سے پورے کئے گئے ہوتے ہیں اُ س خاندان کو عمر بھر کے لئے مقروض اور بد حال بنا دیتے ہیں۔


جناب خادم اعلیٰ !کچھ ایسا ہی بلکہ اس سے کئی بُرا حال پنجاب بالخصوص لاہور کے چوراہوں میں نشہ آور ادویات اور ٹیکے استعمال کرتے ان لوگوں اور ان کے گھر والوں کا ہے۔چاند جیسے حسین چہروں، ماؤں کے لعلوں اور بہنوں کے سہاروں کو اس حالت میں دیکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ ان کے گھر والوں کو بھی آپکے گھر والوں کی نسبت کئی گناہ اذیت ناک مراحل سے گذرنا پڑتا ہے ۔

انکے بوڑھے والدین اور جوان بہنیں ا ن کے علاج کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں ، غربت اور فاقوں سے لڑتے ،کرایوں کے گھروں میں رہائش پذیر ان کے لواحقین سود پر رقم لے کراپنے پیاروں کو اس زہر قاتل سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنی سی کوشیشیں کرتے رہتے ہیں اوریوں ان کی تما م عمر سود کی رقم ادا ء کرتے ہوئے گذر جاتی ہے۔لیکن ان کی یہ تما م کاوشیں اس وقت دم توڑ جاتی ہیں جب منشیات فروشی اور نشہ آور ادویات کی کھلے عام فروخت میں ملوث طاقتور مافیا بغیر خوف و خطر شہر کے گلی محلوں میں موت بانٹتا دکھائی دیتا ہے۔

منشیات فروشوں، ڈرگ انسپکٹروں اور پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے نشہ آور ٹیکوں کی بلا روک ٹوک بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ نیکی سمجھتے ہوئے فروخت کی وجہ سے نشہ کے عادی افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
جناب خادم اعلیٰ !آپ درد دل رکھنے کے ساتھ حسا س طبیعت کے ما لک ہیں یقیناآپ کو اس بات کا بخوبی ادراک ہو گا کہ ایک گھر کا کوئی شخص بیمار ہو جائے اور اس بیماری کی شدت کی وجہ سے جاں بحق ہو جائے تو اس کے گھر والوں کو کچھ دنوں نعد صبرا ٓجا تا ہے لیکن ناسور کی طرح پھیلتے ”نشہ آورادویات اور ٹیکوں“کے عادی لوگوں کے لواحقین بظاہر سانس لیتے اپنے پیاروں کواس مرُدگی کی حالت میں دیکھتے ہوں گے تو ان کے دل پر کیا قیامت گذرتی ہوگی۔

چند روز پہلے کی بات ہے جب ایک بزرگ دوست کے ہمراہ دفتر سے ایک جگہ جانے کے لئے نظر باہر نکلتے ساتھ ہی ٹولیوں میں بیٹھے ،جسم کے مختلف حصوں میں ٹیکے لگاتے ہوئے ان لوگوں پر پڑی تو میرے ساتھ بیٹھے دوست بے ساختہ بولے کہ ان کی پیدا ئش پر بھی ان کے ماں باپ نے مٹھائی تقسیم کی ہو گی۔ خادم اعلیٰ !جس طرح حمزہ شہباز شریف کی ولادت پر آپ نے بھی مٹھا ئی تقسیم کی تھی یقینا اسی طرح ان کے والدین نے بھی خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مٹھائی تقسیم کی ہو گی لیکن ان کی وہ خوشیاں اور مسرتیں اس وقت غم ، پریشانی اور بے بسی میں تبدیل ہو چکی ہیں جب یہ اپنے جگر گوشوں کو اس حالت میں دیکھتے ہیں۔


جناب خادم اعلیٰ!آپ سے بڑھ کے لوگوں کے دکھوں کو اور کون جا ن سکتا ہے اور آپ سے بڑھ کر اس کا مداوا بھی اور کون کر سکتا ہے؟لاکھوں کی تعداد میں اس زہر قاتل کا شکار لوگ اور ان کے بوڑھے ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے یہ سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ انہیں صرف اپنے اللہ کے بعد آپ سے امید ہے کہ جس طرح آپ اپنے عملی اور انقلابی اقدامات کی وجہ سے مخلوق خدا کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہیں ا سی طرح پہلی ہی فرصت میں منشیات اور نشہ آور ادویات کے بیو پاریوں ان کی سرپرستی کرتے اپنی صفوں میں موجود کارندوں،اور ان کی دلالی کرتے پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے ان کونشان عبرت بناتے ہوئے لاکھوں خاندانوں کی دعاؤں کے مستحق ٹہریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :